Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا انتخابی شطرنج کی نئی بساط پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی ساتھ مل کر کھیلیں گے؟

موجودہ صورت حال میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آٹھ فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی 265 میں سے 253 کے نتائج آ چکے ہیں۔
اب تک کے نتائج کے مطابق سب سے زیادہ ایک 100 نشستیں آزاد امیدواران، 71 نشستیں مسلم لیگ ن، 54 پاکستان پیپلز پارٹی، 17 ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور جے یو آئی تین تین، استحکام پاکستان پارٹی دو اور باقی تین جماعتیں ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
بظاہر دیکھنے میں یہ لگ رہا ہے کہ سیاست کی اس شطرنج کی ایک ایک چال دلچسپ ہونے جا رہی ہے۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کیونکہ بظاہر مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار جن کی اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے، پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا چاہے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ 134 کے جادوئی ہندسے کو عبور کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، آئی پی پی، دو آزاد اور دیگر علاقائی جماعتوں کی نشستیں ملا کر 154 کا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، جو کہ موجودہ صورت حال میں اس کے لیے ایک آئیڈیل حل نظر آ رہا ہے۔
اگر لیگی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر پی ڈی ایم طرز کی حکومت بناتی ہے تو سب سے پہلے اسے ایک طویل لین دین سے گزرنا پڑے گا جہاں ہر جماعت کے اپنے مطالبات ہوں گے۔

اگر لیگی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بناتی ہے تو سب سے پہلے اسے ایک طویل لین دین سے گزرنا پڑے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان مطالبات کو پورا کرتے کرتے حکومتی اتحاد ایک طرف تو ملکی معاملات چلانے میں ناکام ہو جاتے ہیں دوسری طرف ہمہ وقت بلیک میلنگ کا خدشہ بھی موجود رہتا ہے۔ اور دوسری جانب جب بھی کوئی جماعت اتحاد سے الگ ہو جائے تو وزیراعظم اکثریت سے محروم ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت حال میں جو سب سے بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ اگر کوئی کام اچھا ہو جائے تو سبھی جماعتیں اس کا کریڈٹ لینے پر تیار ہو جاتی ہیں لیکن اگر کسی جگہ حکومت ڈیلیور نہ کر سکے تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم اور اس کی جماعت پر ڈال دی جاتی ہے جس کا عملی نمونہ انتخابی مہم کے دوران سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اپنے ہی سابق وزیراعظم شہباز شریف سے متعلق بیانات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

شیئر: