Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی دہلی کتاب میلے میں سعودی عرب مہمان خصوصی

یہ کتاب میلہ اگرچہ اپنے روایتی مقام پر ہو رہا ہے لیکن اس بار یہ اس نئی عمارت میں ہو رہا ہے۔ (انڈیا گریس)
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 51 واں عالمی کتاب میلہ کئی اعتبار سے اپنی نوعیت میں مختلف ہے۔
میلے کا تھیم ’ملٹی لنگوئل انڈیا‘ یعنی متنوع زبان کا ہندوستان ہے جس میں ملک کی مختلف زبانوں کا جشن منایا جا رہا ہے جبکہ سعودی عرب کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا ہے، اور اس کے تحت عرب کی زبان و ثقافت کی نمائش کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے رنگا رنگ کلچرل پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔
یہ کتاب میلہ اگرچہ اپنے روایتی مقام پر ہو رہا ہے لیکن اس بار یہ اس نئی عمارت میں ہو رہا ہے جسے انڈیا نے جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے تیار کرایا تھا۔ اسے نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) منعقد کراتا ہے۔
این بی ٹی کے ڈائریکٹر کرنل یوراج ملک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کو اس بات کی خوشی ہے سعودی عرب اس بار مہمان ذی وقار ہے۔ انڈیا اور عرب کا رشتہ صدیوں پرانا ہے اور نئے زمانے میں یہ مزید نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔‘
میلے کی کورآڈینیٹر کنچن سنہا نے بتایا کہ اس بار سکول کے بچوں کے لیے داخلہ مفت رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے میلے میں رونق زیادہ ہو گی۔
میلے کا افتتاح رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ سنیچر کو ہوا اور 18 فروری تک جاری رہے گا۔ اس میں بچوں کے پویلین کے ساتھ یووا (نوجوان نسل) کارنر بھی ہے جبکہ ایک سے لے کر ہال نمبر پانچ تک دنیا بھر سے آنے والے کتب فروشوں نے اپنے سٹالز سجا رکھے ہیں۔
ایک ہال میں بیرون ملک کے اشاعتی گھروں کی کتابیں جہاں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں وہیں بین الاقوامی سطح کے پبلشرز کے پویلین میں زیادہ بھیڑ دیکھی جا رہی ہے۔

شروتی نے کہا کہ ’اتنے بڑے پیمانے پر کتابوں کا کوئی میلہ میں نے پہلی بار دیکھا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

میلے میں ہماری ملاقات جہاں کتابوں کے چاہنے والوں سے ہوئی وہیں پہلی بار کتاب میلے میں آنے والوں سے بھی ہوئی۔
شروتی دہلی کے میلے میں پہلی بار آئی تھیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج جہاں زیادہ تر آن لائن کتابیں دستیاب ہیں وہاں کتابوں کا اتنا بڑا جشن دیکھ کر میں حیران ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے شہر میں بھی کتابوں کا میلہ لگتا ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر کتابوں کا کوئی میلہ میں نے پہلی بار دیکھا ہے اور اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ کتابوں کا چلن بہت جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔‘
اسی طرح ہماری ملاقات فیضان احمد نامی نوجوان سے ہوئی جو پہلی بار کسی کتاب میلے میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئے تھے۔ تاریخ میں بی اے کرنے کے بعد وہ پہلی بار نئی دہلی آئے تھے اور میلے میں پہنچ کر نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے کئی کتابیں خرید لیں۔
وشال مشرا دہلی کتاب میلے میں پہلے بھی آتے رہے ہیں اور اب تو وہ خود اپنا سٹال لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ دہلی کتاب میلے کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ یہاں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں معاون کتابیں لے کر آئے ہیں۔
ہم نے سعودی پویلین کا بھی دورہ کیا لیکن وہاں کتابوں سے زیادہ ثقافتی پروگرامز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں عربی زبان اگرچہ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں عام ہے لیکن اس کے پڑھنے اور بولنے والے کمیاب ہیں۔

فیضان احمد پہلی بار کسی کتاب میلے میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئے تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پاکستان کے سٹالز اب نظر نہیں آتے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستانی کتب فروش انڈیا سے اپنی کتابیں واپس نہیں لے جاتے تھے۔ ان کی تمام تر کتابیں یا تو خرید لی جاتی تھیں یا کوئی اور کتب فروش انہیں اپنے ذخیرے میں شامل کر لیتا تھا۔
اردو کے معروف ناشر وہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مصنفین کا کارنر بھی ہے جہاں نئی کتابوں کے رسم اجرا کے ساتھ مصنفین کی کتابوں پر مکالمہ ہوتا ہے۔
سیلفی پوائنٹس بھی ہیں اور لوگ اپنی اپنی تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر اپنی حاضری درج کرانے کے لیے بھی وہاں پہنچ رہے ہیں۔
ڈیجیٹل عہد میں جہاں ہر شخص موبائل پر نظریں جمائے بیٹھا ہے وہاں ہر طرف کتابوں کو دیکھنا ایک خوش کن احساس ہے۔

شیئر: