’دہلی چلو مارچ‘، کسانوں کو دارالحکومت سے دور رکھنے کے لیے ہنگامی انتظامات
کسانوں کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کا مقصد دو سال قبل کیے گئے وعدے حکومت کو یاد دلانا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کسانوں نے دہلی کی طرف مارچ شروع کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب ان کو دارالحکومت سے دور رکھنے کے لیے ہنگامی طور پر انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق حکومت کی جانب سے احتجاج پر پابندی لگائی گئی ہے اور شہر کی طرف جانے والے راستوں کو بھی سِیل کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیر کو کسانوں کی قیادت نے چندی گڑھ میں یونین منسٹرز کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں فصلوں کی زیادہ سے زیادہ امدادی قیمت کے معاملے پر بات چیت ہوئی تاہم پانچ گھنٹے سے زائد تک جاری رہنے والی یہ ملاقات بے نتیجہ ختم ہو گئی جس کے بعد کسان احتجاج اور دلی کی طرف مارچ پر تلے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس ملاقات میں خوراک اور صارفین کے امور کے وزیر پیوش گوئل اور وزیر زراعت ارجن منڈا نے کسانوں کی قیادت کے ساتھ معاملات نمٹانے کی کوشش کی یہ ملاقات تقریباً آدھی رات تک جاری رہی۔
ملاقات سے قبل رات 11 بجے کے قریب فریقین ان امور پر متفق ہو گئے تھے کہ بجلی کے بل منسوخ کیے جائیں، لکھیم پور کیری، اتر پردیش میں مارے جانے والے کسانوں کے لواحقیق کو معاوضے کی ادائیگی اور جن کسانوں کے خلاف مقدمے درج ہیں، وہ واپس لیے جایئں گے۔
تاہم ان کے علاوہ دیگر تین اہم مطالبات پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا جن میں فصلوں کی امدادی قیمت کی ضمانت کے لیے قانون کا نفاذ، قرضوں کی معافی اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات پر عمل کے نکات شامل تھے۔
مذاکرات ختم ہونے کے بعد آدھی رات کے قریب کسان مزدور سنگھرش کمیٹی کے رہنما سارون سنگھ پندھیر کا کہنا تھا کہ ’دہلی مارچ اِز آن۔‘
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’دو سال قبل حکومت نے تحریری شکل میں کہا تھا کہ وہ ہمارے آدھے مطالبات پورے کرے گی، ہم نے کوشش کی کہ معاملات کو پرامن طور پر نمٹایا جائے تاہم حکومت مخلص دکھائی نہیں دے رہی، وہ صرف وقت پاس کر رہی ہے۔‘
دوسری جانب ممکنہ مارچ کے تناظر میں انتظامات بھی شروع ہو چکے ہیں جن میں پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کو دہلی میں داخل نہ ہونے دینے کا انتظام بھی شامل ہے۔ سنگھو، ٹکری اور غازی پور کے داخلی مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
اسی طرح پولیس کی جانب سے ایک ماہ کے لیے عوامی اجتماع اور شہر میں ٹریکٹر ٹرالی کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
ہریانہ کے حکام نے بھی پنجاب کے ساتھ لگنے والے مقامات پر سکیورٹی سخت کر دی ہے جن میں امبالہ، جند، فتح آباد، کرکشیترا اور سرسا شامل ہیں۔ وہاں بلاکس رکھنے کے علاوہ خاردار تار بھی بچھائے گئے ہیں۔
کسان مورچہ اور کسان مزدور مورچہ نے 2020،20 میں بھی دہلی مارچ کا اعلان کیا تھا جس میں شامل ہونے والوں نے انتہائی سخت طرزعمل اپنایا تھا۔
کسان مزدور مورچہ میں 250 سے زائد کسانوں کی یونینز شامل ہیں جبکہ کسان سموکت مورچہ 150 کے قریب یونینز کا پلیٹ فارم ہے۔
ان کی جانب سے دسمبر یہ کہتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا کہ اس کا مقصد حکومت کو دو سال قبل کیے گئے وعدے یاد دلانا ہے۔