Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین فوج کی تحویل میں تین کشمیریوں کی ہلاکت، مودی حکومت کا خبر ہٹانے کا حکم

دسمبر میں انڈین فوج پر حملے کے بعد تین افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے ایک جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے وادی کشمیر میں فوج کے ہاتھوں شہریوں پر تشدد اور قتل کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حالات حاضرہ کے ’کاررواں‘ نامی جریدے نے فوج کی تحویل میں تین شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے گزشتہ ہفتے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔
دسمبر میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں فوج پر ہونے والے ایک مہلک حملے کے بعد ان افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس حملے میں تین انڈین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
جریدے کی انتظامیہ نے منگل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے موصول ہونے والے سرکاری حکم نامے میں نیوز رپورٹ کو 24 گھنٹوں کے اندر ویب سائٹ سے ہٹانے کا کہا گیا ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا ہے کہ ’حکم نامے کا متن خفیہ ہے۔ ہم اس حکم کو چیلنج کریں گے۔‘
اے ایف پی کے رابطہ کرنے پر جریدے کی انتظامیہ نے جواب نہیں دیا جبکہ وزارت اطلاعات نے ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔
ہلاکتوں کی خبر منظرعام پر آنے کے بعد انڈین فوج نے ان گرفتاریوں سے متعلق انکوائری کروانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ گرفتار کیے گئے دیگر شہریوں نے بتایا تھا کہ دوران حراست انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان شہریوں کے بیانات کا جائزہ قیدیوں کی لیک شدہ ویڈیوز کی روشنی میں لیا گیا تھا جن میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ ویڈیوز فوراً ہی سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں میڈیا پر عائد پابندیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور کشمیر میں یہ رحجان عام ہے۔

فوج نے زیرِحراست افراد کی ہلاکتوں کی تحقیقات کا وعدہ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

کشیدگی کا شکار ہمالیہ کے اس خطے میں پانچ لاکھ سے زیادہ انڈین فوجی تعینات ہیں۔
تنقیدی رپورٹنگ اور تجزیوں کو زبردستی ہٹانے کے احکامات وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا ہتھیار بن گئے ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فائونڈیشن سے منسلک پراتیک واگھرے نے کہا، ’کاررواں کے خلاف جاری کیے گئے احکامات انڈیا میں انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی بڑھتی ہوئی پابندیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ، حکومت کی جانب سے تنقیدی رپورٹس پر اس نوعیت کا ردعمل معمول بنتا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ باردڑ کی جانب سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، مودی حکومت کے سال 2014 میں برسراقتدار آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں انڈیا 180 ملکوں میں 12 سے 161 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

شیئر: