Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کی ’حکومتی اتحاد کی امید‘ پر جب عمران خان نے پانی پھیر دیا

پیپلز پارٹی کے ارکان نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرنے کی تجویز دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں ایک حلقے کی جانب سے تحریک انصاف کے ساتھ حکومتی اتحاد میں جانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے پیپلز پارٹی کی قیادت تحریک انصاف سے روابط اور مستقبل کے سیاسی اتحاد کے خد و خال پر غور و خوض کر رہی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی عمران خان کی جانب سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد نہ کرنے کا اعلان سامنے آگیا جس کے بعد بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ 
پاکستان میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوا تو سب سے پہلا رابطہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہوا اور ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو مل کر حکومت بنانے کی پیشکش کی۔
پیپلز پارٹی نے یہ مدعا اپنی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں رکھنے کا وعدہ کیا اور 12 فروری کو اجلاس طلب کر لیا۔ اجلاس شروع ہوا اور چار گھنٹے جاری رہنے کے بعد اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
پہلے دن کے اجلاس کے بعد جب پارٹی رہنما زرداری ہاؤس سے باہر آئے اور ان سے پوچھا گیا کہ اجلاس کا ماحول کیسا تھا اور سامنے انے والی تجاویز کیا ہیں، تو مختلف رہنماؤں نے بتایا کہ رائے یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے یا پھر تحریک انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ 
اگلے دن یعنی منگل کو اجلاس شروع ہوا تو دوسری جانب اڈیالہ جیل میں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران عمران خان کی صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کی خبریں بھی بریک ہونا شروع ہوئیں۔ اس گفتگو میں عمران خان نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی سے کسی صورت بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 
یہ خبریں سامنے آنے کی دیر تھی کہ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس کا دعوت نامہ میڈیا کو جاری کر دیا گیا۔ جس میں بلاول بھٹو زرداری نے وزارت عظمیٰ کے لیے ن لیگ کی حمایت کرنے اور وزارتیں نہ لینے کا اعلان کیا۔ 

پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ اجلاس طویل چلنا تھا اور اس میں سامنے آنے والی آراء پر مشاورت جاری تھی۔ اجلاس میں چند رہنماؤں نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اتحاد کی تجویز دی اور ابھی  پی ٹی ائی سے رابطے اور مستقبل کے ممکنہ تعاون پر مزید سوال جواب جاری تھے کہ اچانک بلاول بھٹو کے کان میں ان کے سٹاف نے آ کر بتایا کہ عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کے بعد اجلاس ختم کر دیا گیا۔
اس کا سرسری سا ذکر بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا اور کہا کہ عمران خان اگر کسی سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں دیتی تو ایسی صورت میں کوئی جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی اور دوبارہ الیکشن کی طرف جانا پڑے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے پیپلز پارٹی نظام کو بچانے کے لیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ن لیگ کا ساتھ دے رہی ہے۔  
 پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد کی صورت میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس ہونا تھی جس میں وزارت عظمیٰ اور دیگر عہدوں کے حوالے سے اعلان کیا جانا تھا لیکن عمران خان کے اعلان کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو ادھوری پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ 
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں جانے سے قبل واضح طور پر اس کا اظہار کر چکے تھے کہ پیپلز پارٹی کو اپوزیشن یا پھر تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ 
ان رہنماؤں میں فیصل کریم کنڈی بھی شامل تھے جنہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ چونکہ پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو وزیراعظم نامزد کرنے کی بنیاد پر اپنا ایک منشور دے رکھا ہے، اگر حکومت میں چلے جائیں اور اس منشور پر عمل درامد نہ ہو تو ایسی صورت میں اپوزیشن میں بیٹھنا بہتر چوائس ہے۔

پیپلز پارٹی کے مطابق نظام کو بچانے کے لیے ن لیگ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

فیصل کریم کنڈی نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کے منشور پر عمل درامد کے لیے ضروری ہے کہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہوں۔ اگر نہیں ہوتے اور انہیں شہباز شریف کی کابینہ میں بیٹھنا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں اپوزیشن میں بیٹھنا ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا کیونکہ ماضی میں ہمارا یہ تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ 
تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے حامی رہنماؤں میں ندیم افضل چن سب سے نمایاں ہیں جن کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے 95 فیصد لوگ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد چاہتے ہیں۔
ندیم افضل چن کا کہنا ہے ’عمران خان کے سیاسی فیصلے بظاہر لگتا ہے کہ کوئی اور کر رہا ہے۔ جس طرح کا فیصلہ اب آیا ہے ماضی میں بھی ایسے ہی فیصلوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے کچھ دیگر رہنماؤں نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کی باتیں ہو رہی تھیں اس دوران پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی طاقت کو بحال کرنے کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کا خیال یہ تھا کہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں رہتے ہوئے پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال نہیں کر سکتی۔ ن لیگ کے ساتھ حکومتی اتحاد میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو وہ وقت یا حیثیت نہیں ملتی جو کسی بھی اتحادی کو ملنی چاہیے۔ 
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے یہ موقف رکھتی ہے کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ جو کچھ ہوا پیپلز پارٹی اس میں برابر کی شریک اور ذمہ دار ہے۔ اس لیے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ بالکل درست اور حق بجانب ہے۔ 

پیپلز پارٹی نے حکومت میں بیٹھنے سے انکار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تحریک انصاف کے ایک ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ پوری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ون لیگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ترجمان کے مطابق انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے ہمارے ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے نون لیگ پر تنقید کی اور ساتھ ہی ہمارے ازاد امیدواروں کو خریدنے کے دعوے بھی کیے۔ 
ترجمان نے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان کسی بھی باضابطہ رابطے کی تصدیق نہیں کی۔

شیئر: