Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ اور پی پی کا ’مجبوری میں کیا گیا اتحاد‘ کتنا عرصہ چل سکتا ہے؟

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے معاملات سست روی کا شکار رہے (فوٹو: پی ایم ایل این)
پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان بالآخر حکومت سازی کے حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا ہے جس کے بعد وزیر عظمٰی کے لیے شہباز شریف جبکہ صدارت کے لیے آصف علی زرداری کے نام سامنے لائے گئے ہیں۔ 
دونوں جماعتوں کے درمیان منگل کی رات گئے طے پانے والے معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی تاہم آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دیے جائیں گے۔ 
اس حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران شہباز شریف نے واضح کیا کہ ’پیپلز پارٹی نے وزارتوں کا مطالبہ نہیں کیا۔‘
دونوں جماعتوں نے باقی آئینی عہدوں کے حوالے سے واضح اعلان نہیں کیا تھا تاہم ہم بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آپس میں یہ بات طے کر لی ہے کہ کون کیا عہدہ لے گا لیکن اس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔‘
پیر کی رات جب دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو پیپلز پارٹی کا وفد مشاورت کے لیے گیا تھا اور لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اس دوران ن لیگ کی کمیٹی پیپلز پارٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بات نہ بن سکی اور رات 11 بجے کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔ 
اگلے دن کی کوشش کے باوجود بھی جب رابطے بحال نہ ہوئے تو ن لیگ کی کمیٹی نے شہباز شریف کو صورت حال سے اگاہ کیا جس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان رابطہ ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق دونوں کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی کا وفد بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں منسٹر انکلیو میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر پہنچا اور دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے بعد حتمی معاملات طے پائے، جس کے بعد زرداری ہاؤس میں پریس کانفرنس کے ذریعے اس کا اعلان کیا گیا۔ 

آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اتنا مینڈیٹ نہیں ملا کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے (فوٹو: اے ایف پی)

دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کے حوالے سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب کسی بھی جماعت کے پاس واضح مینڈیٹ نہیں ہے تو ایسے میں کوئی جماعت بھی حکومت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھی، تاہم مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مجبوراً یہ اتحاد کیا ہے جس میں پیپلز پارٹی جس کے پاس تحریک انصاف کے پاس جانے کا آپشن بھی موجود تھا، نے اپنے کارڈز بہتر انداز میں کھیلے ہیں۔ 
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پیپلز پارٹی وزارتوں میں نہیں ہو گی اور مستقبل قریب میں آئی ایم ایف اور دیگر معاملات کے بعد مہنگائی بڑھے گی تو یہی پی پی شہباز شریف کو طعنہ دے گی کہ ہم نے آپ کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ آپ مزید مہنگائی کر کے غریب کا جینا حرام کر دیں، جبکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ جب آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے اور دیگر معاشی معاملات کو آگے لے کر چلنا ہے تو ملک میں مہنگائی لازمی آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی اگرچہ پنجاب میں کمزور پڑ چکی ہے اور جنوبی پنجاب کے علاوہ کہیں پر بھی وہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اس کے باوجود اگر گورنر پنجاب پیپلز پارٹی کا لگتا ہے تو یقیناً وہ ایسا شخص ہو گا جو ماضی قریب میں کئی انتخابات ہار چکا ہوگا تو ایسی صورت میں ن لیگ کے مقامی رہنماؤں اور قیادت کو اس پر تحفظات ہوں گے جس سے ن لیگ کے اندر دراڑ پڑ سکتی ہے۔‘

پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی تاہم آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دیے جائیں گے (فوٹو: سکرین گریب)

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’عین ممکن ہے کہ یہ اتحاد کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی شکل اختیار کر لے اور پیپلز پارٹی کو وزارتوں میں آنا پڑے جس کے امکانات زیادہ ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی اور ممکن ہے کہ ڈیڑھ دو سال کے اندر ان ہاؤس تبدیلی آ جائے یا پھر ملک میں نئے انتخابات ہوں۔‘ 
تجزیہ کار احمد اعجاز کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد جس جوش و خروش سے سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کرتی ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ویسے جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دونوں نے مجبوری میں ہاتھ ملایا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی وزارتیں نہیں لے رہی اور آئینی عہدوں تک محدود رہنے کی ضد مسلم لیگ ن کو مجبوراً ماننا پڑی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ پیپلز پارٹی وزارتوں میں حصہ نہیں لے رہی اس لیے تمام بوجھ مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑے گا اس لیے امکان ہے کہ یہ حکومت لمبا عرصہ چل جائے کیونکہ دوسری کوئی جماعت بھی حکومت کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے وہ حکومت توڑنے یا وسط مدتی انتخابات کی کوشش نہیں کریں گی۔‘
احمد اعجاز نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی اور بالخصوص مسلم لیگ ن خوش نہیں ہیں اس لیے دونوں نے حکومت سازی میں اس روایتی جوش و خروش یا دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو عموماً سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ 

شیئر: