پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان بالآخر حکومت سازی کے حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا ہے جس کے بعد وزیر عظمٰی کے لیے شہباز شریف جبکہ صدارت کے لیے آصف علی زرداری کے نام سامنے لائے گئے ہیں۔
دونوں جماعتوں کے درمیان منگل کی رات گئے طے پانے والے معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی تاہم آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دیے جائیں گے۔
اس حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران شہباز شریف نے واضح کیا کہ ’پیپلز پارٹی نے وزارتوں کا مطالبہ نہیں کیا۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا حمزہ شہباز پنجاب میں مریم نواز کے ساتھ کام کر سکیں گے؟Node ID: 838006
-
تو اب حل کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 838181
دونوں جماعتوں نے باقی آئینی عہدوں کے حوالے سے واضح اعلان نہیں کیا تھا تاہم ہم بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آپس میں یہ بات طے کر لی ہے کہ کون کیا عہدہ لے گا لیکن اس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔‘
پیر کی رات جب دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو پیپلز پارٹی کا وفد مشاورت کے لیے گیا تھا اور لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اس دوران ن لیگ کی کمیٹی پیپلز پارٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بات نہ بن سکی اور رات 11 بجے کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔
اگلے دن کی کوشش کے باوجود بھی جب رابطے بحال نہ ہوئے تو ن لیگ کی کمیٹی نے شہباز شریف کو صورت حال سے اگاہ کیا جس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان رابطہ ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق دونوں کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی کا وفد بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں منسٹر انکلیو میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر پہنچا اور دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے بعد حتمی معاملات طے پائے، جس کے بعد زرداری ہاؤس میں پریس کانفرنس کے ذریعے اس کا اعلان کیا گیا۔

دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کے حوالے سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب کسی بھی جماعت کے پاس واضح مینڈیٹ نہیں ہے تو ایسے میں کوئی جماعت بھی حکومت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھی، تاہم مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مجبوراً یہ اتحاد کیا ہے جس میں پیپلز پارٹی جس کے پاس تحریک انصاف کے پاس جانے کا آپشن بھی موجود تھا، نے اپنے کارڈز بہتر انداز میں کھیلے ہیں۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پیپلز پارٹی وزارتوں میں نہیں ہو گی اور مستقبل قریب میں آئی ایم ایف اور دیگر معاملات کے بعد مہنگائی بڑھے گی تو یہی پی پی شہباز شریف کو طعنہ دے گی کہ ہم نے آپ کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ آپ مزید مہنگائی کر کے غریب کا جینا حرام کر دیں، جبکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ جب آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے اور دیگر معاشی معاملات کو آگے لے کر چلنا ہے تو ملک میں مہنگائی لازمی آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی اگرچہ پنجاب میں کمزور پڑ چکی ہے اور جنوبی پنجاب کے علاوہ کہیں پر بھی وہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اس کے باوجود اگر گورنر پنجاب پیپلز پارٹی کا لگتا ہے تو یقیناً وہ ایسا شخص ہو گا جو ماضی قریب میں کئی انتخابات ہار چکا ہوگا تو ایسی صورت میں ن لیگ کے مقامی رہنماؤں اور قیادت کو اس پر تحفظات ہوں گے جس سے ن لیگ کے اندر دراڑ پڑ سکتی ہے۔‘
