Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین ریاست آسام میں 89 سال پرانا مسلم شادی کا قانون ختم

مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے اس قانون کو ختم کرنا ایک امتیازی عمل ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈین ریاست آسام کی اسمبلی نے 89 سال پرانے ایک ایسے قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت نابالغ مسلمانوں کو شادی کی اجازت تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ قانون مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود ختم کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے اس اقدام کو انتخابات کے قریب ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا منصوبہ قرار دیا ہے۔
آسام جہاں مسلمانوں کی آبادی باقی انڈین ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ 34 فیصد ہے، کی حکومت نے پہلے کہا تھا کہ وہ شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت کے لیے یکساں شہری قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ ریاست اتراکھنڈ نے اس ماہ کے آغاز میں کیا تھا۔
انڈیا بھر میں ہندو، مسلمان، مسیحی اور دیگر گروہ ایسے معاملات کے لیے اپنے اپنے قوانین اور رسم و رواج یا سیکولر ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یکساں سول کوڈ کا وعدہ کیا ہے جس کی مسلمانوں نے مخالفت کی ہے۔
آسام کے وزیراعلٰی ہمنتا بسوا نے سنیچر کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ آسام نے آسام مسلم شادی اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو منسوخ کر دیا، جو 24 فروری سے نافذ العمل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس ایکٹ میں شادی کی رجسٹریشن کی اجازت دینے کی دفعات شامل ہیں یہاں تک کہ اگر دولہا اور دلہن کی قانونی عمر 18 اور 21 سال تک نہ پہنچ گئی ہو۔ یہ اقدام آسام میں نابالغوں کی شادیوں پر پابندی کی جانب ایک اور اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
آسام کے وزیراعلٰی نے روئٹرز کے اس سوال پر کہ کیا مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ان کی حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرے گی، کہا کہ ’فوری طور پر نہیں۔‘
اپوزیشن میں موجود مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے اس قانون کو ختم کرنا ایک امتیازی عمل ہے۔
ریاستی اسمبلی کے رکن بدرالدین اجمل نے کہا کہ ’وہ مسلمانوں کو مشتعل کر کے اپنے ووٹروں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، لیکن مسلمان ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘

شیئر: