Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا فارم 45 کی وجہ سے پی ٹی اے نے فیس بک، انسٹاگرام کی سروس بند کی؟

منگل کو دنیا بھر میں میٹا کی سروس متاثر تھی جس پر صارفین میں بےحد تشویش پائی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں فیس بُک، انسٹا گرام، میسنجر اور تھریڈز کی بندش سے جہاں ایک طرف صارفین تشویش کا شکار ہوئے تو دوسری طرف واٹس ایپ پر جھوٹی خبریں بھی گردش کرنے لگیں۔
گزشتہ روز منگل کو جب فیس بک اکاؤنٹس ہونے لگے تو پہلے تو کسی کو سمجھ نہیں آیا کہ اچانک ایسا کیسے ہوگیا تاہم دھیرے دھیرے مختلف سازشی تھیوریز جنم لینے لگیں۔ کئی صارفین نے شارک کا حوالہ دیا تو کئی نے الیکشن کمیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں مورد الزام ٹہرایا۔
بعض صارفین مسلسل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے منسوب ایک پرانی خبر بھی شیئر کرتے رہے۔
میٹا کی بعض سروسز بند ہونے کے بعد صارفین نے واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی واٹس ایپ گروپس میں سازشی تھیوریز تیزی سے پھیلنے لگیں۔
پاکستان میں گزشتہ ایک عرصہ سے سوشل میڈیا کی بندش کے سلسلے کو حکومتوں کے عمل دخل سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی اے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
منگل کو جب فیس بُک سے اکاؤنٹس لاگ آؤٹ ہونا شروع ہوئے تو صارفین نے اسے صرف پاکستان کا مسئلہ قرار دیا اور اس حوالے سے افواہیں بھی پھیلائیں جبکہ درحقیقت میٹا کی بعض سروسز پوری دنیا میں متاثر تھیں۔
واٹس ایپ پر سب سے زیادہ گردش کرنے والی ایک جھوٹی خبر کو پی ٹی اے سے منسوب کیا جا رہا تھا جس میں پی ٹی اے ویب سائٹ کی ایک پریس ریلیز کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’پی ٹی اے نے پاکستان میں تمام متعلقہ آپریٹرز کو  فیس بُک کی ویب سائٹ کو اگلے احکامات تک بلاک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایات لاہور ہائی کورٹ  کے فیصلے کے پیش نظر وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل میں جاری کی گئی ہیں۔‘
صارفین مختلف واٹس ایپ گروپس میں پی ٹی اے پر الزام لگاتے نظر آئے تاہم یہ خبر 2010 کی ہے جب لاہور ہائی کورٹ نے مبینہ توہین آمیز کارٹون مقابلے کے پیش نظر فیس بک پر پاکستان میں پابندی لگائی تھی تاہم یہ پابندی دو ہفتوں کے بعد ہٹا لی گئی تھی۔ لہٰذا اس خبر کا حالیہ فیس بُک بندش سے کوئی تعلق نہیں۔

صارفین کے خیال میں فارم 45 کی وجہ سے پی ٹی اے نے فیس بک کی سروس معطل کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی طرح ایک خبر یہ بھی گردش کرتی رہی کہ فیس بک اور دیگر سروسز کی بندش کے پیچھے الیکشن کمیشن کی جانب سے اپ لوڈ کیے جانے والے فارم 45 کارفرما ہیں۔
یہ پیغام بریکنگ نیوز کے ساتھ کچھ یوں شیئر کیا جا رہا تھا: ’خبر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایپ پر فارم 45 کہیں اور سے اپ لوڈ ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کے الیکشن کو لے کر تشویش پائی جار ہی تھی۔ انہیں آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام بند کر دیا گیا ہے۔ گوگل پر فیس بک میں کوئی مسئلہ نہیں آ رہا۔‘
اس خبر کی آڑ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر فارم 45 کہیں اور سے اپ لوڈ ہوئے ہیں اور اس پر تنقید کی وجہ سے پوری دنیا میں فیس بک سروسز معطل کی گئیں ہیں جبکہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔
یہ دعویٰ سوشل میڈیا صارفین سنسنی پھیلانے کے لیے کر رہے تھے جبکہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ بظاہر یہ دعویٰ کسی نے شرارتاً واٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا جسے کئی صارفین نے حقیقت مان کر آگے پھیلایا جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
میٹا نے تاحال سروسز کی بندش سے متعلق باضابطہ بیان بھی جاری نہیں کیا۔
اسی طرح مارک زکر برگ نامی ایک وریفائیڈ ایکس اکاؤنٹ کا سکرین شاٹ بھی شیئر کیا جاتا رہا جو دراصل ایک پیروڈی اکاؤنٹ ہے۔ اس سکرین شاٹ میں مارک زکر برگ سے منسوب ایک بے قاعدہ اور خلاف معمول مگر از راہ مذاق بیان شیئر کیا جا رہا تھا۔
واٹس ایپ گروپس میں ایک بے بنیاد خبر یہ بھی گردش کرتی رہی کہ بحیرہ احمر میں آبدوز کی وجہ سے کیبلز کو نقصان پہنچا ہے۔ اس خبر میں ہانگ کانگ کی ایک انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کمپنی کا حوالہ دیا جا رہا تھا۔

خبر میں بتایا گیا تھا ’بحیرہ احمر میں آبدوز کی وجہ سے تاروں کو نقصان پہنچنے سے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث کئی ممالک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں خلل پیدا ہوا ہے۔ متعلقہ کمپنیز انٹرنیٹ ٹریفک سمیت ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ٹریفک کے ایک چوتھائی حصے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔‘
یہی خبر انگلش زبان میں بھی وائرل تھی جس میں حکام کا حوالہ دیا جا رہا تھا جبکہ درحقیقت اس نجی کمپنی سمیت میٹا یا کسی دوسرے ادارے نے ایسی کوئی خبر نہیں دی۔ جس نجی کمپنی کا حوالہ دیا جا رہا تھا اُس کمپنی کی ویب سائٹ سمیت فیس بُک اور لنکڈ ان پر کہیں بھی فیس بُک بندش سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لہٰذا یہ خبر بھی محض افواہ پر مبنی تھی۔
مجموعی طور پر بے شمار سازشی خبریں پھیلائی گئیں جو مس انفارمیشن کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ اکثر صارفین غیر ارادی طور پر یہ خبریں پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ 

شیئر: