Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیگزینڈر گراہم بیل جن کی ایجاد کے بغیر زندگی مشکل

گراہم بیل کی جب تدفین کی گئی تو امریکہ میں ان کے اعزاز میں ایک منٹ کے لیے ٹیلی فون سروس معطل رکھی گئی۔ فائل فوٹو
’واٹسن، یہاں تشریف لائیے…..میں آپ سے ملاقات کا خواہاں ہوں۔‘
یہ چند الفاظ سال 1876 میں آج ہی کے دن ٹیلی فون پر ادا کیے گئے جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے سائنسدان اور موجد الیگزینڈر گراہم بیل اس وقت محض 29 برس کے تھے اور ان کو تین روز قبل ہی ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل ہوا تھا۔
مارچ کا مہینہ الیگزینڈر گراہم بیل کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تین مارچ 1847 کو پیدا ہوئے، سات مارچ کو انہوں نے ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل کیا اور 10 مارچ کو دنیا کی پہلی ٹیلی فون کال کی جس نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
گراہم بیل کے دادا، والد اور چچا خطیب تھے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ ان کی والدہ اور بیوی بول سن نہیں سکتی تھیں جس نے نوجوان گراہم بیل کو قوت سماعت اور گویائی پر تحقیق کی جانب مائل کیا جو بالآخر حادثاتی طور پر ٹیلی فون کی ایجاد پر منتج ہوئی۔
بات گراہم بیل کی ہو رہی ہے تو چند ہی برس بعد امریکہ کے 20 ویں صدر جیمز اے گارفیلڈ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کو دو گولیاں لگیں۔ اس وقت تک ایکسرے مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی جس سے گولیوں کو نکالنے میں آسانی پیدا ہو جاتی۔ نوجوان گراہم بیل نے میٹل ڈیٹیکٹر ایجاد کیا تھا جس نے ڈاکٹروں کا کام تو آسان کیا مگر گارفیلڈ بچ نہ سکے اور چند ماہ وائٹ ہاؤس کا مکین رہنے کے بعد ستمبر 1881 میں چل بسے۔
گراہم بیل کے لیے زندگی آسان نہیں رہی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈورڈ سال 1867 کے موسم بہار میں تپ دق میں مبتلا ہونے کے باعث چل بسے۔ ان کے بڑے بھائی کی موت بھی اسی وجہ سے ہوئی اور 20 برس کے گراہم بیل بھی بیمار رہنے لگے تھے۔ اس وقت ان کے دل شکستہ والدین نے اپنے باقی ماندہ خاندان کے ساتھ ایک صحت مند مقام پر منقتل ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ خاندان کینیڈا کے شہر اونٹاریو منتقل ہو گیا۔
23 برس کے گراہم بیل کے لیے کینیڈا جانے کا فیصلہ قبول کرنا آسان نہیں تھا کیوں کہ لندن میں وہ سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے ساتھ کام کر رہے تھے جس میں انہوں نے کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی تھی مگر کینیڈا منتقلی کے بعد بھی ان کا جذبہ سرد نہیں ہوا۔ وہ آوازوں پر تجربات کرتے رہے اور اس قدر محو ہو گئے کہ ان کو نجی پریکٹس کا سلسلہ درمیان ہی میں ترک کرنا پڑا۔

تھامس واٹسن ٹیلی فون کی ایجاد میں گراہم بیل کے اسسٹنٹ یا معاون کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: گیٹی امیجز

گراہم بیل کی زندگی کے اس دور میں ان کے دو طالب علموں 6 برس کے جارجی سینڈرز اور 15 برس کی میبل ہبرڈ نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ دو فرشتے نہ ہوتے تو ٹیلی فون کے خواب کو تعبیر دینا شاید ممکن نہ ہوتا کیوں کہ ان دونوں بچوں کے والد تھامس سینڈرز اور گارڈنر ہبرڈ صاحب ثروت تھے جو نہ صرف آنے والے برسوں میں گراہم بیل کی سائنسی سرگرمیوں میں ان کے معاون اور دوست بن گئے بلکہ ان کی تحقیق میں مالی مدد کرتے رہے۔
گراہم بیل اس وقت30  برس کے تھے جب وہ اپنی ہی طالبہ میبل کی محبت میں گرفتار ہو گئے جو ان سے دس برس چھوٹی تھیں۔ دونوں نے جلد ہی شادی کر لی۔ گراہم بیل اس وقت تک ٹیلی فون ایجاد کر چکے تھے۔
19 ویں صدی کے وسط سے ہی جب ٹیلی فون فی الحال ایجاد نہیں ہوا تھا تو دور دراز مقامات پر پیغام رسانی کے لیے برقی ٹیلی گراف استعمال کیا جاتا تھا جس کے باعث خطوط کی نسبت تحریری پیغام بھیجنا آسان تو ہو ہی گیا تھا بلکہ اسے بھیجنے پر وقت بھی کم صرف ہوتا تھا۔ یہ ٹیلی گراف کرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے پیغام کو کوڈ میں تبدیل کرتا اور دوسری جانب موجود تربیت یافتہ آپریٹر اس کوڈ کو ترجمہ کر کے اسے آگے پہنچا دیتا۔
گراہم بیل طویل عرصے سے ایک ایسا ٹیلی گراف تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس پر ایک ہی وقت میں مختلف فریکوئنسز پر بہت سے پیغامات ایک ساتھ بھیجنا اور وصول کرنا ممکن ہو پاتا۔ ان کے ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ ایسا ایک ہی تار پر ہو اور بہت زیادہ تاریں نہ بچھانی پڑیں جن پر غیرمعمولی لاگت آتی۔
گراہم بیل نے اپنی اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تار سے منسلک ٹیلی گراف کے ذریعے انسانی آواز کو منتقل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ مگر اس وقت تک یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا یہ مفروضہ بہت جلد حقیقت بننے جا رہا ہے۔
مسئلہ مگر یہ تھا کہ اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گراہم بیل تکنیکی علم سے نابلد تھے۔ اس وقت ان کی ملاقات بوسٹن کی ایک دکان میں کام کرنے والے 20 برس کے ایک ذہین الیکٹریکل انجینئر تھامسن واٹسن سے ہوئی۔

گراہم بیل کی ساری زندگی علمی تشنگی نہ مٹ سکی اور وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ فائل فوٹو

ٹیلی فون کی ایجاد پر آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر تھامسن واٹسن کا ہو جائے جو دنیا کی ایسی واحد شخصیت ہیں جن کا نام ٹیلی فون پر سب سے پہلے لیا گیا۔
'واٹسن، یہاں تشریف لائیے…..میں آپ سے ملاقات کا خواہاں ہوں۔'
وہ ٹیلی فون کی ایجاد میں گراہم بیل کے اسسٹنٹ یا معاون کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں مگر واٹسن نے 35 ایجادات پیٹنٹ کروائی تھیں اور ایک موجد کے طور پر ان کی پہچان مسلمہ ہے۔
وہ ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ٹیلی فون کے لیے اشارہ ارسال کرنے والی ڈیوائس بنانے کی کوشش کی کیوں کہ کسی کے لیے بھی سارا دن فون سے چپکے رہنا اور کال کا انتظار کرنا آسان نہیں تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے بہت سے تجربات کیے اور بالآخر گھنٹی بنانے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت بجتی جب کالر کی جانب سے کال کی جا رہی ہوتی۔ یہ 60 برس تک مینوفیکچر کی جاتی رہی۔ انہوں نے وہ سوئچ ایجاد کیا جو فون بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یوں کہہ لیجئے کہ ابتدائی دور کے ٹیلی فون کو بہتر بنانے میں تھامسن واٹسن کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے مگر بیل ٹیلی فون کمپنی میں زیادہ عرصہ نہیں گزارا اور ٹیلی فون کی ایجاد کے محض پانچ برس بعد ہی کمپنی چھوڑ دی اور ٹیلی فون کی رائلٹی کی مد میں حاصل ہونے والی رقم سے مختلف کاروبار شروع کیے۔ کاروبار سے جی اچاٹ ہوا تو اداکاری کرنے لگے۔
واٹسن کا مزید ذکر کرنے سے قبل یہ دلچسپ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے کہ محبت کرنے والوں کے دن یعنی 14 فروری 1876 کو گراہم بیل نے امریکی پیٹنٹ آفس میں ’آوازوں کو منتقل کرنے‘ کے پیٹنٹ کی درخواست دی تھی۔ اسی روز ایک اور موجد الیشا گرے نے بھی ایسے ہی پیٹنٹ کے لیے درخواست دی تھی جس میں انہوں نے آواز کی منتقلی کے لیے پانی کا استعمال تجویز کیا تھا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ دونوں سائنس دانوں کے پاس اس وقت تک کوئی ٹیلی فون نامی آلہ موجود نہیں تھا۔

ٹیلی فون کی ایجاد کے محض پانچ برس بعد ہی تھامس واٹسن نے کمپنی چھوڑ دی۔ فائل فوٹو: پکسابے

لیکن گراہم بیل درخواست جمع کروانے کے تین ہفتوں بعد سات مارچ کو ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ تنازع ہمیشہ موجود رہا ہے کہ گراہم بیل یا الیشا گرے میں سے کس نے پیٹنٹ کے لیے پہلے درخواست دی تھی اور یہ بھی کہ گراہم بیل نے الیشا گرے کے پانی کو ٹرانسمیٹر کے طور پر استعمال کرنے کے تصور کو چوری کیا۔ اس حقیقت سے نظریں چرانا بہرحال ممکن نہیں ہے کہ پیٹنٹ ملنے کے محض تین روز بعد گراہم بیل کے ٹیلی فون سے پہلی کال کی جا چکی تھی۔
گراہم بیل کے الیشا گرے کے تصور کو چوری کرنے کی کہانی پر کچھ حالیہ محققین یہ دعوی کرتے ہیں کہ الیشا گرے کو ٹیلی فون کا حقیقی موجد تصور کیا جانا چاہیے کیوں کہ الیگزینڈر گراہم بیل نے مبینہ طور پر ان کا تصور ہی چوری کیا تھا۔ الیشا گرے اگرچہ ایسے ٹرانسمیٹر بنانے پر گراہم بیل سے دو برس پہلے سے کام کر رہے تھے مگر عدالتوں نے اپنے بعدازاں دیے گئے فیصلوں میں گراہم بیل کو ٹیلی فون کا پیٹنٹ دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
گراہم بیل نے جولائی 1877 میں بیل ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی جس نے تقریباً اگلی دو دہائیوں کے دوران گراہم بیل کے پیٹنٹ کو 587 بار چیلنج کیے جانے کا کامیابی سے دفاع کیا۔
امریکن فلاڈیلفیا کانٹینینٹل 19ویں صدی کی نئی ایجادات کی نمائش کا کامیاب ترین میلہ تھا جس میں ٹائپ رائٹرز، سلائی مشینیں اور ہینز کیچپ تک نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ یہ مئی 1876 میں شروع ہوا جس میں گراہم بیل نے اپنے ٹیلی فون کے پروٹوٹائپ کو ثابت کیا کہ اس کے کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے جس کے بعد لوگوں اور سائنس دانوں میں اس ایجاد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تجسس دن بدن بڑھنے لگا تھا۔
گراہم بیل کا خواب سچ ثابت ہو چکا تھا۔ انہوں نے ہبرڈ، سینڈرز اور واٹسن کے ساتھ مل کر جب ٹیلی فون کو تجارتی مقاصد کے لیے مینوفیکچر کرنے کے لیے کمپنی بنائی تو اس وقت امریکہ میں ایسی 13 سو ڈیوائسز کام کر رہی تھیں۔
اور صرف تین سال بعد 1880 میں نئے سال کے موقع پر یہ تعداد  30 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ تاہم، اسی دوران گراہم بیل کی ٹیلی فون میں دلچسپی کم ہونے لگی۔ وہ دولت مند تو ہو ہی چکے تھے۔ انہوں نے بیل ٹیلی فون کمپنی میں اپنا حصہ فروخت کر دیا اور 1880 کی دہائی کے وسط میں ٹیلی فون انڈسٹری میں ان کا کردار تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا۔
یہ 25 جنوری 1915 کا ایک سرد دن تھا جب الیگزینڈر گراہم بیل نے نیویارک سٹی سے اپنے معاون تھامس واٹسن کو سان فرانسسکو میں کال کی اور اپنا مشہور زمانہ جملہ دہرایا، ’واٹسن، یہاں تشریف لائیے…..میں آپ سے ملاقات کا خواہاں ہوں۔‘ جس کے جواب میں واٹسن نے کہا، ’مجھے یہاں پہنچنے میں پانچ روز لگ جائیں گے۔‘
یہ ایک طویل فاصلے کی کال تھی جس میں کالر اور ریسیور کے درمیان 55 سو کلومیٹر کا فاصلہ حائل تھا۔ امریکی صدر ووڈرو ولسن کے علاوہ دونوں شہروں کے میئر بھی اس تاریخ ساز موقع پر موجود تھے۔
ٹیلی فون کی ایجاد کے ساتھ ہی گراہم بیل کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی۔ جنوری 1878 میں برطانوی ملکہ وکٹوریہ نے گراہم بیل کو دعوت دی۔ کہا جاتا ہے کہ ملکہ نے اس موقع پر کہا کہ ’‘یہ ایک غیرمعمولی ایجاد ہے۔‘ انہوں نے زاں بعد اسے نصب کرنے کے لیے بھی کہا۔ اسی سال برطانیہ میں گراہم بیل کے فون کی فروخت کے لیے ٹیلی فون کمپنی لمیٹڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
گراہم بیل نے ایک طویل زندگی گزاری اور اپنی ایجاد ٹیلی فون کو مزید ترقی پاتے دیکھا۔ وہ 2 اگست 1922 میں کینیڈا کی وکٹوریہ کاؤنٹی میں وفات پا گئے۔ یوں ان کا اور میبل کا نصف صدی سے زیادہ پر محیط ساتھ ختم ہوا۔
گراہم بیل کی جب تدفین کی گئی تو امریکہ میں ان کے اعزاز میں پورے ایک منٹ کے لیے ٹیلی فون سروس معطل رکھی گئی۔
واٹسن اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انگلینڈ میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے روحانی گرو مہربابا سے ملاقات میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے امریکہ میں ان کے اولین دورے میں اہم کردار ادا کیا لیکن واٹسن جلد ہی ان کے اثر سے باہر نکل آئے۔
الیگزینڈر گراہم بیل اور تھامس واٹسن دونوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ گراہم بیل کی ساری زندگی علمی تشنگی نہ مٹ سکی اور وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہے کہ وہ ٹیلی فون ایجاد نہ بھی کرتے تو سائنس کی دنیا میں ان جیسے ذہین دماغ بہت زیادہ نہیں رہے ہوں گے۔
وہ ایک ایسے موجد تھے جنہوں نے دنیا کو ایک ایسے بندھن میں جوڑا جس سے ترقی کے نئے در وا ہوا اور  رابطے بڑھے تو چند ہی برسوں میں امریکہ کے لاکھوں گھروں میں ٹیلی فون نصب ہوچکا تھا اور آج اس ایجاد کے بغیر دنیا کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔

شیئر: