Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خواتین کے مساوی حقوق کا فروغ،‘ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پانچ مرد مقررین

انتونیو گتیرس نے کہا تھا کہ خواتین کے قانونی مساوات کے حصول کے لیے 300 سال لگ سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
خواتین اور لڑکیوں کے مساوی حقوق کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے نے پیر کو اپنی سالانہ میٹنگ کا آغاز پانچ مرد مقررین کے ساتھ کیا۔
ایک ایسی تقریب کا انعقاد جس نے کچھ مردوں کو مضطرب کیا جبکہ جنرل اسمبلی کے چیمبر میں موجود سینکڑوں خواتین کے لیے یہ کچھ حیران کن تھا۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ آخم شٹائنر اور مردوں میں سے سب سے آخری سپیکر نے مائیکروفون کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت محتاط ہوں کہ اس پوڈیم پر کھڑا آپ سے مخاطب ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس دو انتخاب ہیں کہ ’نہ بولیں یا کھڑے ہوں‘ اور صنفی مساوات کی حمایت کریں۔
کروشیا کے اقوام متحدہ کے سفیر اور اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کی نمائندگی کرنے والے تیسرے مرد سپیکر آئمن سیمانووچ نے  کونسل کی خاتون صدر کی غیرموجودگی کے لیے معذرت کی جنہوں نے  ضروری کام کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔
اس فہرست میں بات کرنے والی پہلی خاتون چیتنا گالہ سنہا چھٹے نمبر پر تھیں جو سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہی تھیں اور جب انہیں پوڈیم پر بلایا گیا تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔
سنہا تین دہائیاں قبل ممبئی سے ریاست مہاراشٹر کے ایک قحط زدہ گاؤں میں منتقل ہوئیں اور وہاں بینک شروع کرنے میں مقامی خواتین کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری خواتین مائیکرو کریڈٹ سے مائیکرو انٹرپرائز کی طرف جانا چاہتی ہیں۔‘
خواتین کی صورتحال پر کمیشن کا 68واں اجلاس 22 مارچ تک اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں جاری رہے گا۔ ’غربت کے خاتمے اور صنفی تناظر میں اداروں اور مالیاتی اقدامات کو مضبوط بنا کر صنفی مساوات اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے کام کی رفتار میں اضافہ‘ اس اجلاس کا موضوع ہے۔
اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق کے ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیما بہاؤس نے یہ کہتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ ’یہاں آکر بہت اچھا لگا۔ مجھے لگتا ہے کہ کمرے میں توانائی بہتر ہو رہی ہے کیونکہ ہم مزید خواتین کو سٹیج پر آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘

خواتین کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے لیے چیتنا گالہ سنہا مہاراشٹر منتقل ہوئی تھیں۔ (فائل فوٹو)

اجلاس میں شریک تقریباً ہر مرد اور خاتون نے تنازعات میں پھنسی خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار کے بارے میں بات کی، انہوں نے اپنی تقریروں میں خاص طور پر غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں خواتین پر بات کی۔
اقوام متحدہ کے لیے فلپائن کے سفیر انتونیو لغدیمیو نے شرکا سے کہا کہ ’وہ تنازعات کے حالات میں تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اجلاس کو بتایا کہ ’مردوں کی جانب سے کی جانے والی جنگوں کا سب سے زیادہ نقصان خواتین اور لڑکیوں کو ہو رہا ہے۔‘
گزشتہ ہفتے انتونیو گتیرس نے کہا تھا کہ خواتین کے قانونی مساوات کے حصول کے لیے 300 سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے دو تشویشناک رجحانات کا حوالہ دیتے کہا کہ ’پدرانہ نظام دوبارہ واپس آ رہا ہے کیونکہ مطلق العنان اور پاپولسٹ خواتین کی آزادیوں اور ان کے جنسی اور تولیدی حقوق پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا مردوں کی جانب سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت کا غلبہ جو خواتین کی ضروریات اور حقوق کو نظر انداز کر رہا ہے۔

شیئر: