کیا ریلیوں اور سیمیناروں سے پاکستانی معاشرے کی اجتماعی سوچ میں کوئی تبدیلی آرہی ہے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی آواز کئی دہائیوں سے اٹھائی جا رہی ہے۔ اِسی نسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی8 مارچ کو عالمی یوم ِنسواں کے موقع پر رسمی اجلاس، ریلیاں، سیمنار اور عورت مارچ کا انعقاد کیا جاتا ہے، مگر اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اِن ریلیوں اور سیمیناروں سے پاکستانی معاشرے کی اجتماعی سوچ میں کوئی تبدیلی آرہی ہے؟
کیا یہ ریلییاں خواتین کی حقیقی جدوجہد کے لیے گھر یا دفتر میں عزت، وقار، برابری، سکون اور تحفظ کا سامان بن رہی ہیں؟
جواب تو شاید اِس معاشرے کا ہر شخص اپنی اپنی ذہنی اور شعوری بساط یا سوچ کی نرمی یا شدت کے تناظر میں دے ہی دے، لیکن جب یہی سوال مجھے بحثیت خاتون، استاد، ماں، بہن، بیٹی اور دیگر سماجی اور خاندانی ذمہ داریوں کے تناظر میں سوجھتا ہے تو پھر یہ ایک سوال ’ہی فار شی مہم‘ کی یاد دلاتا ہے۔
یہ ایک عالمی مہم تھی جس کا آغاز اقوام متحدہ نے 1994 میں کیا۔ اس کی روح سے خواتین کو ان کے حقوق کی آگاہی سے زیادہ مردوں کی تربیت اور عورت کے معاملے میں ان کی سوچ، فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا تھا۔ یعنی خاتون سے زیادہ ان سے متعلق مرد، باپ بھائی شوہر بیٹا اور معاشرے کے اہم رکن کے طور پر ان کی مجموعی سوچ کو بدلنا تھا۔
یہ تحریر اسی تناظر میں پاکستانی مہذب معاشرے سے چند حالیہ مثالوں سے وابستہ ہو کر کچھ سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ ہم واقعی بدلے ہیں یا بات صرف نعروں تک ہی محدود ہے؟ کیا ہمارے معاشرے کے مرد کی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے یا وہ بھی رسمی طور پر سوشل میڈیا پر اس دن پر نیک خواہشات کے اظہار تک ہی محدود ہے؟
خواتین کا ایک خاص طبقہ ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے اپنے حقوق کے لیے ماڈرنزم اور ایمپارومنٹ کی روداد سناتے ہر سال عورت مارچ میں نظر آتا ہے، جس کو فیمینزم کے نظریے پر یقین رکھنے والا ایک سکول آف تھاٹ کافی آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ عورت مارچ کی اصل وجہ پس پشت ڈال کر فیمنزم کی غلط عکاسی کی جاتی ہے۔ میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا ہر گز نہیں مگر میرا سوال ہے کہ چند ایک مثالوں کے علاوہ جن خواتین کو ایمپاورڈ کہا جاتا ہے کیا وہ حقیقت میں پاکستانی معاشرے میں ایمپاورڈ ہیں یا اسی ایمپاورمنٹ کےنام پر وہ بوجھ بھی ان کے کندھوں پر لادھ دیا گیا ہے جن کو مردوں نے اُن کے ساتھ ’شانہ بشانہ‘ بانٹنا تھا؟
کیا کسی کے پاس اتنا سوچنے کا وقت ہے کہ شکل اور پہناوے سے مضبوط نظر آنے والی ایمپاورڈ خاتون گھر اور باہر کی دنیا میں کن مسائل سے دوچار ہے؟ اِن کا تدارک کرنا تو دُور شاید چند لمحوں کے لیے کوئی اس مدعے پر سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو، نوکری، گھر داری، اولاد کی تربیت، ہر میدان میں ’شانہ بشانہ‘ چلتے چلتے اُس کی اپنی جسمانی اور ذہنی سکون کے خیال کے لیے مرد کا ’شانہ بشانہ‘ساتھ کھڑے ہونے کی آگاہی کیا پاکستانی معاشرے کی ترجیح ہے؟
کیا یہ معاشرہ آج بھی ایک خاتون کو سڑک پر آزادی سے چلنے کی آزادی دیتا ہے؟ میں یہ سوال اُس معاشرے سے کر رہی ہوں جہاں کچھ ہی دن پہلے ایک خاتون کو کُرتے پر چند حروف کی وجہ سے ہراساں کیا گیا۔ مانتی ہوں اس بے بس خاتون کو بچانے والی بھی ایک نڈر خاتون ہی تھی جس کو مضبوطی بھی اس کی پولیس کی وردی نے دی تھی۔
خراجِ تحسین ہے ایس پی گلبرگ شہربانو نقوی کو مگر کیا معاشرہ ایک عام اور سادہ لباس والی خاتون کو تحفظ، اعتماد اور مظبوطی نہیں دے سکتا؟ آج بھی پاکستان کے متوسط گھر میں ایک لڑکا چاہے وہ کسی بھی عمر کا ہو گھر کی عورت کے ساتھ باہر جائے گا تو وہ بہن، بیٹی اور ماں زیادہ محفوظ محسوس کرے گی۔ آخر ہمارے معاشرے میں آزادی سے باہر جانے سے عورت خوفزدہ کیوں ہے؟
سیالکوٹ کا دردناک واقعہ تو شاید صدیوں روح کر تڑپا کر رکھ دے مگر یہ ہولناک حقیقت انہی سڑکوں پر دندناتی پِھرتی ہے مگر الزام کبھی عورت کے لباس اور کبھی گھر سے غلط وقت پر نکلنے کو دے کر چیپٹر قانون کی فائلوں میں بند ہوجاتا ہے۔ یہ مدعا سوشل میڈیا کے ٹرینڈز اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں بھی دم توڑ دیتا ہے مگر سوچ اور حقیقت وہیں ’جھانکتی‘ نظر آتی ہے۔
راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تضحیک کرنا، انہیں بلیک میل کرنا اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے آخر یہ کب اور کون روکے گا؟ کیا میں اِس مقام پر عورت سے زیادہ مرد کی تربیت پر سوال اُٹھا سکتی ہوں؟
کیا یہ آج کا پاکستانی معاشرہ ناکام شادی اور ایک طلاق یافتہ عورت کی کمزوری نہیں سمجھتا؟ کیا شادی کرنے اور بعد میں شادی کے نام پر گھر کو بسانے کا ذمہ دار صرف عورت کو نہیں مانا جاتا؟
چاہے وہ کیسے ہی درندہ پرور شخص کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو؟ شادی تو گاڑی کے دو پہیوں کا نام ہے جس کو ’شانہ بشانہ‘ چلانے میں ہی منزل پر پہنچنے کی اُمید کی جاسکتی ہے مگر عورت شادی کی کامیابی اور ناکامی کی واحد ذمہ دار کیوں بن گئی؟ میرے مشاہدے میں کئی ایسی مواقع ہیں جہاں میں نے یہ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ عورتیں کیوں ظلم برداشت کر تی ہیں؟ یہ ایسی آدمی کے ساتھ کیوں رہ رہی ہیں؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟
او بھائی! ایسے مردوں کو چھوڑ کر طلاق کے ’دھبے‘ کے ساتھ یہ خواتین کہاں جائیں؟ ماں باپ کے اُس گھر میں جہاں اب اتنے سالوں کے بعد اُن کی جگہ نہیں۔ اور اگر جگہ ہے تو معاشرے کی بے حسی طلاق یافتہ بیٹی کے ماں باپ کی زندگیاں نگل جاتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ایک فنڈڈ ریسرچ پراجیکٹ کے تحت شادی شدہ خواتین کو درپیش مسائل کا سروے کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کچھ ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ، فنانشنلی خود مختار اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی شادی اور گھر بسانے کے نام پر ذہنی اور جسمانی تشدد سے بھری زندگی میں رہنے کا ڈیٹا سامنےآیا۔ جہاں اپنی طلاق سے پہلے اور طلاق کے بعد کی زندگیوں کو موازنہ کر کے وہ شادی شدہ زندگی کو ترجیح دے رہی ہیں۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے حالات میں جہاں عورت خود ایک شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو وہاں اولاد کی پرورش صحت مندانہ ہو سکے گی؟
ذہنی تناؤ سے یاد آیا کہ گذشتہ دسمبر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے مختص کیے عالمی 16 روزہ دورانیہ کے حوالے سے ہی لیکچر کی تیاری کے لیے اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ کو کچھ فیکٹ اینڈ فیگرز لینے کے لیے کھولا تو پاکستان سمیت دنیا بھر سے جسمانی تشدد اور زیادتی کا ہولناک ڈیٹا تو مل گیا، مگر ایک بھی ایسا سٹیٹسٹیکل ڈیٹا نظر نہیں آیا جو ذہنی تشدد پر مبنی ہو۔
شدید تشویس کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے جینڈر سٹڈی کی ایک پروفیسر سے اسی بارے رہنمائی لی تو پریشانی میں مزید اضافہ ہوا کہ ایسی ریسرچ یا ڈیٹا تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا پاکستان میں شادی سے پہلے اور بعد میں مرد اور عورت دونوں کی ذہنی صحت کو ترجیح دینے کی سوچ بھی جنم لے پائے گی؟
ذہنی صحت اور علاج کا رجحان بھی شاید ایلیٹ کلاس تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ متوسط گھر یا عام گھرانوں میں شاید پوسٹ پارٹم ڈیپریشن بارے ابھی اکثریت کو تو شاید علم ہی نہ ہو، علاج خاک ہوگا۔
یعنی ’کیا تم پہلی عورت ہو جو دنیا میں ماں بنی ہے؟ ‘ سے لے کر ’یہ عورت پاگل ہوچکی ہے‘ جیسے کلمات ادا کرنے سے معاشرے کو کون روکے گا؟ کیا اکیسویں صدی میں پاکستانی معاشرے میں بیٹے کی پیدائش کی خواہش سے آج کی عورت کو آزاد کر دیا گیا ہے؟ کیا آج کی عورت نے بیٹی کے نصیب سے ڈرنا بند کر دیا ہے؟
چلیے اب بات کرتے ہیں عزت اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کی جو بس عورتوں کے لیے مخصوص ہو چکا۔ مقابلہ تو شاید فیمنزم کی تعریف کو ہی غلط ثابت کر دیتا ہے مگر موازنہ کرنا جائز ہے۔ لہذا موازنے کے لیے ایک سوال یہ بھی ہے کہ مرد کی غیرت اور عزت کہاں جاتی ہے جب گھر بیٹھی عورت اور اس کی اولاد تو اس کی راہ تکتے ہیں مگر وہ سکون کے متلاشی کہیں دوسری تو کہیں تیسری شادی کے خواب نگر کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔
’مگر بہن مرد کا بھی کبھی کچھ بگڑا ہے‘، بڑے بوڑھوں کی کہی ایسی بات کب اور کیسے پلو کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے شاید کسی کو ادراک ہی نہیں۔
نور مقدم کا دِل دہلا دینے والا واقعہ بھی کیا کوئی بھول سکتا ہے؟ مگر آپ خود ہی دیکھ لیجیے، اس واقعے پر بھی ہم تقیسم ہیں، کوئی حق میں تو کوئی مخالفت میں۔ اختلاف کیجئے کہ یہ آپ کا بنیادی حق ہے لیکن میرا یقین ہے کہ چاہے قانون سازی کر لیں، ریلیاں نکال لیں، سمینار کرا لیں، یا پھر پلے کارڈز تھامے مال روڈ پر کھڑے رہیں، تبدیلی بنیادی طور پر مرد کی سوچ بدلنے، بیٹی کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ بچپن ہی سے بیٹے کی تربیت اور کردار سازی پر توجہ سے ہی آسکے گی۔
وگرنہ شاید یہ صدی بھی ایسے ہی گزر جائے اور ہمارا پاکستانی معاشرہ عورت کو اپمپارومنٹ کے نام پر دھوکہ ہی دیتا رہے گا۔
ڈاکٹر عائشہ اشفاق پنجاب یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ ڈویلپمنٹ کمییونیکیشن کی چئیرپرسن ہیں۔