Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں جنگ بندی، اسرائیل نے مذاکرات کے لیے وفد دوحہ بھیج دیا

رفاح کے علاقے میں 15 لاکھ فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل نے حماس کی نئی تجاویز کو ’غیر حقیقت پسندانہ‘ قرار دینے کے باوجود غزہ جنگ بندی کے حوالے سے نئے مذاکرات کے لیے وفد قطر بھیج دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ کے جنوب میں واقع شہر رفاح پر فوجی حملے کے منصوبے کی منظوری بھی دے چکے ہیں جہاں 15 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
مذاکرات کار رمضان کے لیے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں گزشتہ ہفتے ناکام رہے، لیکن ثالث اب بھی رفح پر اسرائیلی حملے اور بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کو روکنے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں۔
امریکہ جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، کی جانب سے بھی رفاح پر حملہ نہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے کیونکہ اس سے انسانی تباہی ہو گی۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے وہاں سے لوگوں کو منتقل کرے گا۔
اسرائیل کی جانب سے منظورشدہ تجاویز موصول ہونے کے دو ہفتے بعد حماس نے جو جواب دیا اس میں چھ ہفتے کے لیے جنگ بندی بھی شامل تھی، جبکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہر اسرائیلی کے بدلے 50 قیدیوں کے تناسب سے یرغمالیوں کے ساتھ تبادلہ اور جنگ کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے بات چیت کے نکات بھی شامل تھے۔
تجزیہ کاروں نے حماس کی تجاویز کو مسترد کیے جانے پر اسرائیل کے لہجے میں تبدیلی محسوس کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے پچھلے ہفتے عسکریت پسند گروپ کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو ’مکمل دھوکہ‘ اور ’کسی اور سیارے سے‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا تاہم حالیہ تجویز کو ’غیرحقیقت پسندانہ‘ قرار دیا گیا۔
حماس کے عہدیدار سمیع ابو زوہری کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تجاویز کو مسترد کیے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت جاری رکھنے اور جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’واشنگٹن کو اپنے اتحادی پر جنگ بندی کو قبول کرنے کے لیے زور دینا چاہیے۔‘
علاوہ ازیں جمعے کو سمندر کے راستے امداد لانے والا جہاز غزہ کے ساحل پر پہنچا جس میں 200 ٹن خوراک کا سامان موجود تھا۔
چیئرٹی ورلڈ سینٹرل کچن عارضی بندرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے سامان پہنچا رہا ہے تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ سمندری یا ہوائی راستے سے فراہم کی جانے والی امداد ناکافی ہے اور اسرائیل کو زمینی راستے سے امدادی سامان کی فراہمی کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔

شیئر: