Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب غزہ جنگ کو کس طرح دیکھتا ہے؟

شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ ’سعودی عرب نے عرب امن اقدام کے حوالے سے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ سعودی عرب غزہ میں تنازع کے خاتمے میں مدد کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کر رہا ہے لیکن وہ ابھی بھی اپنے اس اصل موقف پر قائم ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مملکت کو قیام امن میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
’سعودی عرب اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تنازع کے آغاز سے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنسز اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف اسرائیلیوں بلکہ ہر ایک کے لیے امن اور سلامتی چاہتا ہے۔‘
گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے، جس نے غزہ میں خونریزی کا تازہ دور شروع کیا، سے قبل سعودی عرب اور اسرائیل امریکہ کی ثالثی میں ایک تاریخی معاہدے کے قریب تھے۔
تاہم غزہ میں جنگ نے، ایسا لگتا ہے کہ اس عمل کو ختم کر دیا ہے اور مشرق وسطیٰ کے امن عمل کو مزید پس پشت ڈال دیا ہے۔ غزہ کے حکام صحت کے مطابق ابھی تک اسرائیلی حملوں میں 30 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اس طرح کے معاہدے کی شرائط یکساں رہیں گی، قطع نظر اس کے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو صرف اس صورت میں معمول پر لائے گا جب دو ریاستی حل پر عمل درآمد ہو جائے گا اور فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے ولی عہد، وزیر خارجہ اور سعودی حکام کے بیانات یہ نظر آیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نام نہاد بحالی، اگر ایسا ہوتا ہے، فلسطینی ریاست جس میں اس کے قابل عمل اور بقا کے لیے تمام ضروری انتظامات ہوں، کے قیام سے پہلے نہیں ہو گی۔‘
’یہ شروع سے ہی سعودی عرب کا سرکاری موقف رہا ہے۔‘
سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے عرب امن اقدام کے حوالے سے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے، یہ اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان مکمل امن کے حصول کا واحد قابل عمل طریقہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے سب سے بڑے متاثریں فلسطینی ہیں۔ اور ان کے حقوق کا حصول اور انہیں ان کی اپنی ریاست اور شناخت فراہم کرنا نہ صرف سعودی عرب، بلکہ عرب دنیا اور عام طور پر مسلم دنیا کا بنیادی مقصد رہا ہے۔‘
’کئی دہائیوں پہلے تنازع کے آغاز سے یہ سعودی عرب کا ایک مقصد رہا ہے اور اب بھی ہے۔‘
اگر دہائیوں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دیرپا حل کے لیے مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے، تو شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اس بات چیت کو متوازن ہونا پڑے گا، خاص طور پر اگر اسرائیلی فریق حماس کو کسی بھی بات چیت سے خارج کرنے پر اصرار کرے۔
انہوں نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کے لیے اگر یہ شرائط رکھی جائیں کہ مذاکرات کی میز پر کون نمائندگی کرے گا، تو ان شرائط کو دونوں طرف یکساں طور پر رکھا جانا چاہیے۔‘
شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ ’اگر وہ فلسطینی فریق کی جانب سے کچھ جماعتوں کو باہر کرنے جا رہے ہیں، مثال کے طور پر جیسے حماس کیونکہ اس نے سات اکتوبر کو جو کیا ہے، تو پھر انہیں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار اسرائیلی سیاسی جماعتوں کو بھی نکال دینا چاہیے۔‘
’اور اس بنیاد پر الزام کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے، اگر یہ اس کے لیے صحیح لفظ ہے، یا فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی نمائندگی ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی بھی اتنے ہی مجرم اور اتنے ہی ظالم ہیں جتنے حماس یا فلسطینی فریق میں سے کوئی بھی جنگجو۔‘

غزہ کے حکام صحت کے مطابق ابھی تک اسرائیلی حملوں میں 30 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی غزہ میں فوجی مہم نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے، سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ ’میں واحد شخص نہیں ہوں جو اس پر یقین رکھتا ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ ہم نے دنیا کا ردعمل ہر جگہ دیکھا ہے، یورپ، امریکہ، ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ آپ جہاں بھی جائیں، لوگ فلسطینیوں اور خاص طور پر غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اور یقینی طور پر، عالمی عدالت انصاف پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی بنیادیں موجود ہیں کہ اسرائیل ان علاقوں میں نسل کشی کر رہا ہے۔ لہذا، میں واحد نہیں ہوں جو اس پر یقین رکھتا ہے۔‘

شیئر: