’بہتر زندگی کا خواب‘، پاکستانی خاندان سمندری سفر میں ہلاک
’بہتر زندگی کا خواب‘، پاکستانی خاندان سمندری سفر میں ہلاک
جمعہ 29 مارچ 2024 5:46
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
علی آغا کا تعلق کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے سے تھا جو گزشتہ دو دہائیوں سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہا ہے (فائل فوٹو: عادل شاہ)
علی آغا اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ انسانی سمگلروں کی مدد سے کشتی میں بیٹھ کر بہتر زندگی کا خواب لیے یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے، لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بدقسمت خاندان کی زندگی کا سفر ختم ہو گیا۔
15 مارچ کی صبح ان کی کشتی ترکیہ کے شمال مغربی صوبے چناق قلعہ میں طوفان کے باعث الٹ گئی۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے علی آغا اور ان کے خاندان سمیت اس کشتی پر درجنوں افراد سوار تھے۔
ترک حکام کے مطابق کشتی پر سوار افراد کی درست تعداد معلوم نہیں، لیکن 13 دنوں کی مسلسل تلاش کے بعد اب تک 23 افراد کی لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں۔
ان میں علی آغا، ان کی اہلیہ 40 سالہ بی بی طاہرہ، چار بچے 14 سالہ سبحان، 12 سالہ سجاد، 10سالہ فاطمہ اور پانچ سالہ کوثر بھی شامل ہیں۔
علی آغا کے برادر نسبتی عادل شاہ کے مطابق ان کے پیاروں کو اپنے وطن کی مٹی بھی نصیب نہیں ہو سکی اور انہیں وہیں ترکیہ کے شہر استنبول میں سپردِخاک کر دیا گیا۔
عادل شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ سید علی آغا کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ کے رہائشی تھے جن سے ان کی بہن کا رشتہ تقریباً 15 سال قبل ہوا۔
شادی کے بعد میاں بیوی کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ، بے امنی اور مالی مشکلات کے باعث پاکستان چھوڑ کر ہمسایہ ملک ایران منتقل ہو گئے۔ وہاں سے تین چار سال قبل روزگار کی تلاش میں ترکیہ چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے بیوی بچوں کو بہتر اور خوشحال مستقبل دینا علی آغا کا خواب تھا لیکن ترکیہ میں ان کی زندگی آسان نہیں تھی۔ وہ وہاں تعمیراتی شعبے میں یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ کرایے کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور بمشکل اپنا خرچ پورا کررہے تھے۔‘
عادل شاہ کے مطابق ترکیہ میں مستقبل کے لیے بہتر مواقع نہ ہونے کے باعث ان کی نظریں یورپ پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کے دو بھائی اور والدین پہلے ہی جرمنی میں تھے۔ وہ ان کے پاس جانا چاہتے تھے۔
’بہن اور بہنوئی نے یورپ جانے سے پہلے مجھ سے بات نہیں کی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ میں خطرات کی وجہ سے ان کے فیصلے کی مخالفت کروں گا تو انہوں نے مشورہ کیے بغیر ترکیہ سے یونان جانے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بہن نے جانے سے پہلے والدہ کو وائس مسیج چھوڑا اور بتایا کہ وہ شوہر اور بچوں کے ساتھ سفر پر نکل رہی ہے، اگر فون بند ملے تو پریشان نہیں ہونا۔‘
عادل شاہ کے مطابق ’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا سفر کب اور کہاں سے شروع ہوا، ہمیں 20 مارچ کو ترکی سے کسی جاننے والے نے ٹیلی فون پر حادثے کی اطلاع دی اور بتایا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔‘
’ہم نے ترکیہ میں پاکستانی سفارت خانے اور ترک حکام سے رابطہ کیا۔ میتوں کو کوئٹہ لانے کا طریقہ کار بہت مہنگا، پیچیدہ اور وقت طلب تھا۔ ایک میت کو کوئٹہ لانے کا خرچ کم از کم آٹھ ہزار ڈالر بتایا جا رہا تھا، اس لیے خاندان نے جاننے والوں کو انہیں وہیں دفنانے کی اجازت دے دی۔‘
ان کے مطابق حادثے کی وجہ سے پورا خاندان کرب میں مبتلا ہے۔ بوڑھے والدین صدمے میں ہیں۔
کوئٹہ میں بطور کلینکل کونسلر کام کرنے والے عادل شاہ کہتے ہیں کہ اپنا وطن ہر کسی کو پیارا ہوتا ہے، اسے چھوڑنا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا، لیکن جب جان کا خطرہ ہو اور مستقبل بھی بے یقینی کا شکار ہو، مالی مشکلات اور بے روزگاری ہو تو بہت سے لوگوں کو ملک چھوڑنا ہی بہتر راستہ لگتا ہے۔
ان کے بقول ’علی آغا زندہ رہنا اور اچھی زندگی گزارنا چاہتا تھا لیکن بظاہر زندگی بچانے کا یہ سفر ہی ان کی زندگی کے خاتمے کا سفر بنا۔‘
کوئٹہ کے علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں آباد اس قبیلے کے تقریباً ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک ہے جن کی معاشی آسودگی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں موجود رشتہ دار اور جاننے والے ان کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔
ان کوششوں میں درجنوں افراد اپنی جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں۔
فروری 2023 میں لیبیا سے اٹلی جانے کی کوشش کے دوران کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی ہاکی اور فٹبال کی خواتین ٹیم کی کھلاڑی شاہدہ رضا سمندر میں ڈوبنے کے باعث ہلاک ہو گئی تھیں۔
دسمبر2011 میں انڈونیشیا سے کشتی کے ذریعے آسٹریلیا جانے کی کوشش کے دوران گہرے سمندر میں ڈوبنے سے کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے کے 50 سے زائد افراد کی موت ہو گئی تھی۔
عادل شاہ کا کہنا ہے کہ امن وامان کی صورتحال تو اب کافی بہتر ہو گئی ہے، لیکن مہنگائی نے جینا مشکل کر دیا ہے۔
پہلے جو بے امنی کی وجہ سے بھاگ رہے تھے، اب وہ ملک کے غیریقینی معاشی حالات کی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بیرون ملک جا رہے ہیں۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
ترک حکام کے مطابق کشتی ڈوبنے کا واقعہ 15 مارچ کو ترکیہ کے شمال مغربی صوبہ چناق قلعہ میں پیش آیا۔
ترکیہ کے خبر رساں ادارے ’ڈیمیرورین‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی چناق قلعہ کے ضلع ایجے آباد کے ساحل سے روانہ ہوئی تھی اور 15 مارچ کی صبح آٹھ بجے کے قریب ساحل سے تقریباً 13 کلومیٹر دور طوفان کے نتیجے میں الٹنے کے بعد ڈوب گئی۔ دو تارکین وطن تیر کر خود ساحل تک پہنچے اور کوسٹ گارڈ کو حادثے کی اطلاع دی جس کے بعد تلاش کا کام شروع کیا گیا۔
چناق قلعہ کے گورنر الہامی آقتاش کے مطابق دو دیگر افراد کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ سات بچوں سمیت 22 تارکین وطن کی لاشیں نکالی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کشتی پر سوار افراد کی صحیح تعداد کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ ڈوبنے والوں کی تلاش کے لیے فضائی اور سمندری آپریشن جاری ہے۔
لاپتا تارکین وطن کی تلاش کے 11ویں دن (26 مارچ کو ) ایک اور شخص کی لاش ایجے آباد کے گوکچادا ساحل سے ملی۔ اس طرح جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 23 ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق ربڑ کی کشتی پر سوار یہ افراد یونانی جزیرے سموتھراکی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ترک کوسٹ گارڈز کے مطابق اس نے صرف رواں ماہ کشتیوں پر یونان جانے کی کوشش کرنے والے کئی سو افراد کو پکڑا یا پھر حادثات کا شکار ہونے سے بچایا۔
یورپی یونین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپ میں داخل ہونے والے 90 فیصد سے زیادہ غیرقانونی تارکین وطن کا انحصار سمگلروں پر ہے۔
جون 2023 میں جنوبی یونان کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے کم از کم 80 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سے 15 سے زائد پاکستانی بھی شامل تھے۔
اس سانحے کے بعد پاکستانی حکومت نے انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔
’تارکین وطن کی 60 فیصد ہلاکتیں ڈوبنے سے ہوتی ہیں‘
ترکیہ کے ساحلوں سے بہت سے تارکین وطن یورپی ملک یونان کے جزیروں تک پہنچنے کے لیے سمندری راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ یورپ کے خوشحال ممالک تک رسائی حاصل کر سکیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم ) کے مطابق افغانستان، شام، پاکستان سمیت تنازعات کا شکار افریقہ اور مشرقی وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد یورپی ممالک میں بہتر زندگی کی تلاش میں یونان، اٹلی اور یورپ کے دیگر خوشحال ممالک تک پہنچنے کی کوشش میں خطرناک سمندری گزرگاہوں کا رخ کرتے ہیں جن میں ہزاروں افراد ہر سال جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
آئی او ایم نے تین روز قبل یعنی 26 مارچ 2024 کو مسنگ مائیگرنٹس پروجیکٹ کی 10 سالہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2014 سے اب تک ہجرت کے دوران نو ہزار خواتین اور بچوں سمیت 63 ہزار سے زائد تارکین وطن موت کا شکار یا پھر لاپتا ہو چکے ہیں۔
ان میں سے 60 فیصد اموات ڈوبنے کی وجہ سے ہوئیں۔ صرف بحیرۂ روم 27 ہزار تارکین وطن کی جانیں نگل چکا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 10 برسوں کے دوران لقمہ اجل بننے والے ایک تہائی سے زیادہ تارکین وطن کا تعلق تنازعات میں گھرے یا مہاجرین کی بڑی آبادی رکھنے والے ممالک سے تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2023 تارکین وطن کے لیے ایک دہائی کا سب سے خونریز برس رہا جس کے دوران ساڑھے آٹھ ہزار تارکین وطن کی موت یا گمشدگی رپورٹ ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں اب تک کے رجحانات بھی کم تشویش ناک نہیں ہیں اور اموات کی تعداد پچھلے برس کی طرح زیادہ ہے۔
رپورٹ میں سمندر میں مصیبت میں گھرے تارکین وطن کی مدد کے لیے تلاش اور بچاؤ کے لیے استعداد کار بڑھانے، نقل مکانی کے لیے قانونی سہولیات کی فراہمی، غیرقانونی سمگلنگ نیٹ ورکس کے خلاف بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔