اسحاق ڈار کی ’اقتصادی سفارتکاری‘ کی پالیسی معاشی مسائل حل کر پائے گی؟
اسحاق ڈار کی ’اقتصادی سفارتکاری‘ کی پالیسی معاشی مسائل حل کر پائے گی؟
جمعہ 29 مارچ 2024 8:20
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
اسحاق ڈار نے تجارت کو بڑھانے کے لیے محنت اور لگن سے کام کرنے کی ہدایت کی (فوٹو: اے ایف پی)
چار مرتبہ پاکستان کے وزیرخزانہ رہنے والے معیشت دان محمد اسحاق ڈار نے وزیر خارجہ کے طور پر اپنے پہلے غیرملکی دورے کے دوران کہا ہے کہ ان کی ساری توجہ ’اقتصادی سفارتکاری‘ پر ہے۔
گذشتہ ہفتے برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افسران سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اقتصادی سفارت کاری پاکستان کو مضبوط کرے گی اور بیرون ملک پاکستانی سفارتکاروں کو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کو روایتی کے ساتھ اقتصادی سفارت کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے افسران کو ملک میں طویل المدتی سرمایہ کاری لانے اور تجارت کو بڑھانے کے لیے محنت اور لگن سے کام کرنے کی ہدایت بھی کی۔
اسحاق ڈار کے ان خیالات کے اظہار کے بعد سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ان کی یہ ’اقتصادی سفارتکاری‘ کی اصطلاح کیا ہے اور کیا ان کو اسی مقصد کے لیے وزیرخزانہ کے بجائے وزیر خارجہ بنایا گیا ہے؟
کیا اقتصادی سفارتکاری میں پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے اور کیا اسحاق ڈار اس میں کامیاب ہو سکیں گے؟
معاشی ماہرین ’اقتصادی سفارتکاری‘ کو ترجیح دینے کی ضرورت اور اہمیت سے تو متفق ہیں، تاہم ان کے خیال میں اسحاق ڈار کے اس بیان کے پیچھے ایک جامع قومی منصوبے کے بجائے محض ان کا اپنے آپ کو اور اپنی معاشی میدان کی مہارت کو خارجہ امور سے متعلق ثابت کرنا ہے۔ اور یہ بتانا ہے کہ ان کو وزارت خارجہ میں اس لیے بھیجا گیا ہے کیونکہ یہاں پر ان کی زیادہ ضرورت تھی۔
سابق وفاقی وزیر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس بارے میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکانومک ڈپلومیسی کی ضرورت ہے، تاہم اسحاق ڈار کا اس وقت اس بارے میں بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی لا کر اس کو معیشت کے گرد پروان چڑھانا چاہ رہا ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ ابھی بھی معیشت میں کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
حفیظ شیخ نے کہا کہ اسحاق ڈار کی گفتگو تو اقتصادی سفارتکاری کی جامع تعریف نہیں کرتی، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ پاکستان کو اس وقت اس کی اشد ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کے واقعات کے بعد چین سے پاکستان کے تعلقات مشکل میں ہیں اور اس کے ساتھ آئی ایم ایف بھی چین سے پاکستان کے تعلقات خراب کروانا چاہ رہا ہے۔ ایسے میں اقتصادی سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان کو تین بنیادی نکات پر اقتصادی سفارتکاری مرتب کرنی چاہیے اور پھر اس کو بتدریج وسعت دینی چاہیے۔
’فوری طور پر یہ تین نکات اہم ہیں جن میں چین سے تعلقات معمول پر رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی کوشش، امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات بہتر بنانا اور انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا شامل ہے۔‘
’ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی متحرک اقتصادی سفارتکاری کی بنیاد یہ تین نکات ہونے چاہییں اور پھر آگے چل کر پاکستان کو اس حکمت عملی کو مزید وسیع کرنا چاہیے۔‘
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان نے چند سال پہلے بھی ایک پالیسی ترتیب دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اب خارجہ تعلقات میں معیشت کو ترجیح دی جائے گی، تاہم اس حوالے سے اسحاق ڈار کا بیان قابل اعتبار نہیں ہے۔
’یہ حقیقت ہے کہ إسحاق ڈار پہلے بھی غیر ذمہ دارانہ بات کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے وقت بھی انہوں نے غیر زمہ دارانہ بیانات دیے تھے اور اس حوالے سے ان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے، تاہم اقتصادی سفارتکاری کا معاملہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا۔‘
ان کے مطابق ’چند سال پہلے بھی اسی طرح کی ایک پالیسی سامنے آئی تھی اور اس پالیسی کو اس وقت فوج کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ معیشت خارجہ پالیسی کی ترجیح ہو گی۔‘
تاہم ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ اس پالیسی پر عملدر آمد نہیں ہوا اور روزمرہ کے معاملات اور ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انہوں نے کہا اب بھی ایسا بہت حد تک ممکن ہے کہ اسحاق ڈار کے بیان کے پیچھے کوئی منصوبہ نہ ہو اور انہوں نے ویسے ہی یہ بات کر دی ہو۔
لیکن ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ’اقتصادی سفارتکاری‘ کی حمایت کی اور کہا کہ خارجہ پالیسی کہ بنیاد اقتصادیات ہونی چاہییئں۔
انہوں نے اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہ ’اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر بھی معیشت اور تجارت کے لیے ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیئے جو معاشی خارجہ پالیسی کو مدد فراہم کرے۔‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ کو کسی دوسرے ملک سے جنگ نہ کرنی پڑے، اس کی ضرورت نہ پڑے اور اس کے لیے تیاری کی ضرورت نہ پڑے تا کہ آپ اس پر خرچ ہونے والی رقم بچا سکیں۔‘