پروین بابی نے امیتابھ بچن کے ساتھ ’امر اکبر انتھونی‘، ’شان‘ اور ’کالیا‘ جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے، بڑی چوٹ کھائی جوانی پہ روئے
یہ گیت اگرچہ انڈیا کی مقبول ترین فلم ’مغلِ اعظم‘ کا ہے لیکن یہ بالی وڈ کی ایک انتہائی گلیمرس اداکارہ پر صادق آتا ہے کیونکہ انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ تین تین اقبالیہ عشق کیے اور سب میں ناکامی ہی اُن کے ہاتھ لگی۔
یہاں تک کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئیں اور تنہائی کے عالم میں زندگی گزارتے ہوئے ایک دن اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں۔
وہ اس زمانے میں سب سے منفرد نظر آتی تھیں جب بالی وڈ کی دوسری ہیروئنیں اپنے بالوں اور میک اپ کی وجہ سے ایک سی نظر آتی تھیں۔
اس معروف اداکارہ کے بال ایسے سیدھے اور ریشمی تھے کہ اگر اِن پر سے ہاتھ گزر جائے تو ستار کی طرح وہ بج اُٹھیں۔
اس اداکارہ کا نام پروین بابی تھا، لیکن آج ہم پروین بابی پر بات کیوں کر رہے ہیں؟ اُن کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو پورے 70 سال کی ہوتیں۔
پروین بابی محمد علی انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے شہر جُونا گڑھ میں ایک متوسط مسلم گھرانے اور بابی شاہی خاندان میں پیدا ہوئیں۔
انہوں نے احمدآباد کے سینٹ زیویئر کالج سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کی۔ اسی زمانے میں انہیں ماڈلنگ کے شعبے میں اپنا کیریئر بنانے کا شوق پیدا ہوا۔
مغربی طرزِ زندگی کی دلدادہ پروین بابی کو ایک دن فلم ساز اور ہدایت کا بی آر اشارہ نے سگریٹ کا کَش لگاتے دیکھا تو اُن کے ذہن میں جس فلم کا تصور تھا انہیں لگا کہ اُنہیں اُن کی ہیروئن مل گئی ہے۔
بی آر اشارہ نے 19 سال کی پروین بابی کو معروف کرکٹر سلیم دُرانی کے ساتھ اپنی فلم ’چرتر‘ میں کام کرنے کا موقعہ دیا۔ اگرچہ یہ فلم فلاپ ہو گئی، تاہم پروین بابی اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہیں۔
پھر اگلے سال 1974 میں اُنہیں بالی وڈ کے ’اینگری ینگ مین‘ امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’مجبور‘ میں کام کرنے کا موقعہ ملا اور یہ فلم کامیاب رہی۔
پھر اِس کے بعد پروین بابی نے امیتابھ بچن کے ساتھ یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ’دیوار‘، ’امر اکبر انتھونی‘، ’شان‘ اور ’کالیا‘ جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔
اسی دوران پروین کو اداکار ڈینی سے محبت ہو گئی اور اِن دونوں کا جذباتی لگاؤ کوئی دو تین سال تک چلا۔
فلمی میگزن ’فلم فیئر‘ کے ایک انٹرویو میں ڈینی نے اپنی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا ساتھ تین چار سال تک رہا پھر دونوں کی راہیں جُدا ہو گئیں۔‘ اس کے بعد ان کی زندگی میں بالی وڈ کے وجیہہ اداکار کبیر بیدی آئے۔
کبیر بیدی نے اپنی سوانح میں ’سٹوریز آئی مسٹ ٹیل‘ یعنی ’قصے جو مجھے ضرور سُنانے چاہییں‘ میں اُن سے متعلق لکھا کہ ’پروین بابی کے ساتھ اُن کی چاہت میں شدت تھی لیکن اُن کا رشتہ شدتِ جذبات کے سبب نشیب فراز کا شکار رہا اور چل نہ سکا۔‘
کبیر بیدی نے یہ بھی لکھا کہ ’اُنہیں شاید بچپن سے ہی ذہنی بیماری تھی جس کے سبب وہ بہت تکلیف سے گزریں اور انہوں نے پروین بابی کو اس تکلیف میں مبتلا دیکھا۔‘
پروین بابی کی زندگی اُن کی فلموں کی کہانیوں سے برعکس نظر آتی ہے جہاں فلموں کے آخری سین میں جدّوجہد کے بعد ہیرو ہیروئین ایک ہو جاتے ہیں لیکن پروین کی زندگی ناکامیوں سے بھری رہی۔
وہ صرف 22 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کی ایسی بلندیوں پر تھیں کہ انہیں عالمی شہرت کے حامل امریکی ’ٹائم‘ میگزین نے اپنے کور پیج پر جگہ دی۔ وہ بالی وڈ کی پہلی فنکارہ تھیں جنہیں اس میگزن نے اس طرح سے پذیرائی بخشی۔
وہ کبیر بیدی کے ساتھ اِس قدر سنجیدہ تھیں کہ انہوں نے اپنے کیریئر کے عروج پر فلم چھوڑ دی اور اُن کے ساتھ یورپ چلی گئیں کیونکہ کبیر بیدی کو ایک اطالوی سیریل میں کام ملا تھا، تاہم دو تین سال بعد دونوں میں ہم آہنگی نہ رہی اور وہ واپس انڈیا آگئیں۔
پروین بابی کی واپسی پر ہندی سنیما نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور انہوں نے کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ واپسی پر انہوں نے ’امر اکبر انتھونی‘، ’سہاگ‘، ’کالا پتھر‘، ’دی برننگ ٹرین‘، ’شان‘، ’کالیا‘ اور ’نمک حلال‘ جیسی کامیاب فلمیں کیں۔
پروین بابی کے زمانے میں ڈریم گرل ہیما مالنی، ریکھا، زینت امان، رینا رائے، راکھی، شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹِل اور نیتو سنگھ وغیرہ خاصی مقبول تھیں۔
تاہم ان کے درمیان بھی پروین بابی چھائی رہیں یہاں تک کہ انہوں نے ایک میگزن میں لکھا کہ ’میں نمبر ون کی ریس میں ہوں اور ممبئی میں کوئی ایسی فلم نہیں جس میں میں پروین بابی نہ ہو۔‘
واپسی پر فلم ساز مہیش بھٹ سے اُن کی قربتیں بڑھیں لیکن چونکہ مہیش بھٹ پہلے سے شادی شدہ تھے اس لیے بات آگے نہ بڑھ سکی، تاہم مہیش بھٹ نے آخری وقت تک اُن کا ساتھ دیا لیکن وہ 1983 کے بعد اپنا ذہنی توازن کھونے لگیں۔
مہیش بھٹ نے فلم فیئر میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’1979 میں انہوں نے ایک بار پروین بابی کا وہ رُوپ دیکھا جس میں وہ ایک کمرے میں چاقو لیے سہمی ہوئی بیٹھی تھیں اور پوچھنے پر کہنے لگیں کہ کوئی انہیں مارنا چاہتا ہے اور پھر وہ اُن کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگئیں۔‘
وہ کئی برس تک علاج کی غرض سے امریکہ بھی رہیں لیکن وہاں بھی ان کا علاج نہ ہو سکا اور وہ انڈیا واپس آگئیں۔
پروین بابی کو امیتابھ بچن سے خوف آتا تھا لیکن اُن کے ساتھ انہوں نے جتنی فلمیں کیں اُس سے بہت سے لوگوں نے اُن کے درمیان تعلق کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں لیکن کبھی دونوں نے اِس کا اعتراف نہیں کیا۔ ویسے امیتابھ بچن نے تو ریکھا کے ساتھ بھی اپنے تعلق کا اعتراف کبھی نہیں کیا۔
انہوں نے شتروگھن سنہا کے ساتھ آخری فلم ’ارادہ‘ 1991 میں کی جس کے بعد وہ فلموں میں نظر نہیں آئیں۔
بہرحال 22 جنوری 2005 کی ایک سرد صبح اُن کی رہائشی سوسائٹی کے سیکریٹری نے پولیس کو خبر دی کہ پروین بابی نے گذشتہ تین روز سے دروازے کے باہر پڑے اخبارات اٹھائے ہیں اور نہ ہی سبزیاں۔
اس کے بعد پولیس نے پروین بابی کے فلیٹ کا دروازہ کھولا تو اندر اُن کی لاش ملی۔ جب لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتا چلا کہ اُن کے پیٹ میں کئی دنوں سے کوئی غذا نہیں گئی تھی۔
البتہ شراب کی تھوڑی مقدار کا پتا چلا تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اُن کی موت دو دن قبل ہی ہو چکی تھی یعنی پروین بابی نے 20 جنوری 2005 کو 50 سال کی عمر میں دنیا کو خیرباد کہا۔
اس طرح ایک ایسی زندگی کا اختتام ہوا جس نے محرومیوں اور محبت میں ناکامیوں کے باوجود اپنا ان مِٹ نقش چھوڑا ہے۔