Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوشکی حملہ: حکومت کا شاہراہوں پر چیک پوسٹیں قائم کرنے کا اعلان

بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اغوا کے بعد قتل کیے گئے 9 مسافروں کی میتیں کوئٹہ میں نمازِ جنازہ کے بعد ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئیں جبکہ وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ایف سی پولیس اور لیویز کی چیک پوسٹس دوبارہ قائم کی جائیں گی۔
مقتولین کی میتیں سنیچر کو نوشکی سے کوئٹہ لائی گئیں، کوئٹہ کے سول ہسپتال میں پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے میتوں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ ’قتل ہونے والے افراد کی عمریں 20 سے 35 برس کے درمیان تھیں۔‘
اُن کے مطابق ’قتل ہونے والے افراد کو پیٹ، سینے اور سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ ضابطے کی کارروائی کے بعد میتیں پہلے ایدھی سینٹر اور بعد میں پولیس لائن منتقل کردی گئیں جہاں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔‘
نمازِ جنازہ میں وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی، ارکانِ بلوچستان اسمبلی عبید گورگیج اور ضیا اللہ لانگو، آئی جی ایف سی نارتھ، ڈی آئی جی کوئٹہ اور دیگر اعلٰی حکام نے شرکت کی۔
مقتولین کی نماز جنازہ کے بعد وزیراعلٰی نے میتوں کو کاندھا دیا جس کے بعد میتیں آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئیں۔
نماز جنازہ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلٰی میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’صوبے میں سکیورٹی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مستقبل میں صوبے کی شاہراہوں پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کا مشترکہ گشت شروع کیا جائے گا، فورسزکو سیاسی اونر شپ دیں گے اور معصوم افراد کے قتل پر مذاکرات نہیں کریں گے۔‘
حکام کے مطابق ’قتل ہونے والے مسافروں میں 6 کا تعلق منڈی بہاؤالدین کے ایک ہی گاؤں چک فتح شاہ سے تھا جبکہ دیگر تین مسافر گوجرانوالہ اور وزیرآباد سے تعلق رکھتے تھے۔
ایس ایس پی نوشکی اللہ بخش بلوچ کے مطابق ’مقتولین کوئٹہ سے مسافر بس کے ذریعے تفتان کے راستے ایران جا رہے تھے۔‘
’جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب نوشکی کے علاقے چڑھائی کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے بس کو روکا اور اس میں سے 9 مسافروں کو شناخت کے بعد بس سے اُتار لیا۔‘

سرفراز بگٹی نے بتایا کہ ’صوبے کی شاہراہوں پر فورسز کا مشترکہ گشت شروع کیا جائے گا‘ (فائل فوٹو: سرفراز بگٹی ایکس اکاؤنٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد نے قریبی علاقے میں جا کر اِن مسافروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا، ان کی میتیں ایک پُل کے نیچے سے ملیں جنہیں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔‘
سول ہسپتال کوئٹہ میں گفتگو کرتے ہوئے ایک عینی شاہد زاہد عمران نے بتایا کہ ’بس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بوڑھے، خواتین اور بچے بھی سوار تھے، تاہم مسلح افراد نے اُنہیں چھوڑ دیا جبکہ باقی مردوں کو اُتار کر اپنے ساتھ لے گئے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں، ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ قتل کیے گئے 9 افراد پہلے ایران اور وہاں سے عراق جانا چاہتے تھے۔‘
’ان میں سے بیشتر افراد کام کے سلسلے میں ایران اور عراق جا رہے تھے اور اُنہوں نے ایک انسانی سمگلر کی خدمات بھی حاصل کر رکھی تھیں۔‘
نوشکی کی پولیس اور انتظامیہ نے انسانی سمگلنگ کے پہلو پر بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ ابھی تک کسی تنظیم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
سکیورٹی فورسز کالعدم مسلح تنظیموں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں جو اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات میں ملوث رہی ہیں اور اِن کی ذمہ دار بھی قبول کرتی رہی ہیں۔

شیئر: