Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کفالت یتیم ، قوم کی اجتماعی ذمہ داری

اِن بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ یتیم بچے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے
* * * * شعیب احمد ہاشمی* * * *
دنیا میں ہر 30 سیکنڈ میں 2 بچے یتیم ہوتے ہیں۔ دنیا میں اِ س وقت13کروڑ20 لاکھ بچے یتیم ہیں اور اِن بچوں میں 6 کروڑ یتیم بچے صرف ایشیا میں موجود ہیں۔ اِن بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ یتیم بچے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے۔دنیا میں موجود اِن 13 کروڑ 20 لاکھ بچوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے ماں اور باپ دونوں موجود نہیں ۔ 95 فیصد یتیم بچوں کی عمر 5 سے 16 سال ہے۔چندمسلم ممالک عراق ،افغانستان، فلسطین اورشام میں بھی گزشتہ چند سالوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث یتیم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی یتیم بچوں کے حوالے سے صورتحال مختلف نہیں۔
گزشتہ عشرے میں آنے والی ناگہانی آفات ، بدامنی کے خلاف جنگ ،صحت عامہ کی سہولیات کی کمی اور روزمرہ حادثات کے باعث جہاں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں لاکھوں بچے بھی اپنے خاندان کے کفیل سے محروم ہو گئے اورمعاشرے کے یتیم ٹھہرے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ ’’یونیسف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں42 لاکھ بچے یتیم ہیںجن کی عمریں 17 سال سے کم ہیں اوران میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں تعلیم وتربیت ،صحت اور خورا ک کی مناسب سہولیا ت میسر نہیں۔بد قسمتی سے روز بروز بگڑتی معاشی صورتحال ،کم آمدنی اور سماجی رویوں کے باعث بھی یتامیٰ کے خاندان کے لئے اْس کا بوجھ اْٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ بچے تعلیم و تربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی اور سماجی محرومیوں کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ کئی تو بے را روی تک کا شکار ہو جاتے ہیں۔توجہ اور بنیادی سہولیات نہ ملنے کے باعث یہ یتیم بچے معاشرے کے بے رحم تھپیڑوں کی نظر ہو جاتے ہیں جہاں ان کی تعلیم و تربیت ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
تعلیم، صحت ، خوراک اور ذہنی و جسمانی نشو نما کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ضرویات سے محرومی تو اِن بچوں کا مقدر ٹھہرتا ہی ہے لیکن اْس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بچوں کو کتابیں پکڑنے کی بجائے اوزار اٹھانے پڑتے ہیں، چائلڈ لیبر کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں معاشرے میں چھپے مسخ چہرے انہی بچوں کو منشیات ، گداگری ،اسمگلنگ اور جنسی زیادتی جیسے گھنائونے جرائم میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑ امافیا بچوں کی اسمگلنگ کرتا ہے جس میں بچوں کے اعضاء تک فروخت کئے جاتے ہیں۔ جو بچے اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہے ہیں ، اْن کے لئے بچوں کے اخراجات مکمل کرنا بھی کبھی مشکل تو کبھی نا ممکن ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ایسے درد دل رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اِسی حوالے سے ایک معتبر فورم پاکستان آرفن کئیر فورم کے نام سے کام کر رہا ہے۔
پاکستان آرفن کئیر فورم کے چیئر مین محمد عبد الشکور سے جب اِ س حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بچے کسی بھی معاشرے کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں اوراِنہی بچوں نے آگے چل کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہوتی ہے۔ والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اِن کے بچے کواچھی خوراک ملے ،اِن کی تعلیم و تربیت اچھی سے اچھی ہو اور اِنہیں وہ تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں، جس کی بنیاد پر وہ خوش و خرم اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔ہمارا معاشرہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں خاندان کے افراد اپنی روز مرہ ضروریات کے لئے مرد پرانحصارکرتاہے جو شوہر یا باپ کی صورت کاروبار یا نوکری کی مدد سے خاندان کے باقی افراد کی کفالت کرتا ہے۔اللہ نے موت اور زندگی کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے۔موت یہ نہیں دیکھتی کہ کسی کے بچے چھوٹے ہیں یا کسی خاندان کے کفیل کے اس جہان ِ فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد کفالت کیسے ہو گی۔ یہ اللہ کا نظام اورکسی معاشرے کا امتحان ہے کہ ان بچوں سے معاشرہ کیا سلوک کرتا ہے۔ پاکستان میں بیسوں ملکی اور بین الاقوامی فلاحی ادارے یتیم بچوں کی کفالت و فلاح و بہبود کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اِن میں سے کچھ ادارے یتیم بچوں کی کفالت کے لئے گھروں کی تعمیر (یتیم خانے)کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور کچھ ادارے ملک بھر میں یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام اْن کے گھروں پرکررہے ہیں۔ پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت کرنے والے انہی اداروںنے پاکستان میں یتیم بچوں کے مسائل اور معاشرے کی اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور اجاگر کرنے کے لئے ’’ پاکستان آرفن کئیر فورم‘‘تشکیل دیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ’’ پاکستان آرفن کئیر فورم‘‘ہر سال 15 رمضان کو ’’یوم یتامیٰ‘‘ کے طور پر منایا کرے گی۔ اِسلام نے جن اعمال کو بہت واضح طور پر صالح اعمال قرار دیا ہے ان میں یتیمو ں اور مسکینوںکی مدد کو ترجیح دی گئی ہے۔
قران پاک میں ارشاد ہے: ’’اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ سکے گی۔(النساء127) نبی مہربان خود بھی یتیم تھے اور اسی لئے جہاں آپ اوروں کے ساتھ صلہ رحمی ، عدل، پاک دامنی، صداقت و درگزر کا پیکر تھے، وہاں مسکینوں ، بیوائوں اور خصوصاََ یتیموں کے لیے سب سے بڑھ کر پیکر ِ ضود سخا تھے۔ حضور اکرم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ (اور آپ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیا)۔ نبی ِ رحمت کے خلق عظیم کی تفصیلات ایک بحر بے کراں ہیں کہ انہیں سمیٹنانا ممکن ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی رحمت کو مجسم ِ قرآن کہا تھا۔ آپ کے اسوہ حسنہ سے ہی دنیا انقلاب سے آشنا ہوئی۔انسان نے اپنے آپ کو پہچانا، انسانیت کی رفعتوں کو پایا، زندگی کا قرینہ سیکھا ، مقصد ِ حیات سے آگاہی حاصل کی۔ آج کا یتیم کل کا جوان ہوگا اور یہ حقیقت ہے کہ بچپن میں بچہ جن محرومیوں اور احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے، اْس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا اور یہ محرومیاں اْس بچے کے مستقبل پر بھر پور اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ یتیم بچہ ،جو ملک و قوم کا وارث بننے جا رہا ہے، اِسے زیادہ سے زیادہ شفقت و محبت سے نوازیں۔ اگر بچپن میں یتیم کو آوارہ چھوڑ دیا گیا اور اس نے غلط تربیت پائی تو یہ اپنے معاشرے کے لئے مفید شہری ثابت ہونے کی بجائے خطرہ بن جائے گا۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اِس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جائے اور معاشرے اور حکومت کو توجہ دلائی جائے کہ اگر اِن یتیم بچوں کا سہارا نہ بنا گیا اوراِن کی تعلیم و تربیت کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو مستقبل میں خطرنا ک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اِن بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے وطن میں یتیم بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس معاشرے کا کار آمد شہری اور فرد بنایا جا سکے۔ مذہبی تعلیمات اور معاشرتی ذمہ داری تو ہر دل میں خواب بْنتی ہے کہ وہ جاگے اور دیکھے اْسکے رشتے داروںمیں ،اہل محلہ ، علاقے اور شہر میں کوئی بے سہارا یتیم تو نہیں۔موسم کی سختیاں برداشت کرتا، کھڑکی سے اسکول جاتے بچوں کو تکتا ، کسی ورکشاپ پر کام کرتا یا کسی چوراہے پر پھول بیچتا کوئی ایسا معصوم جو ہماری توجہ کا مستحق ہو۔اِس ضمن میںاِس نقطے کو سمجھنے اور نمایاں کرنا بہت ضروری ہے کہ یتامیٰ کی کفالت کسی ایک فرد یا ادارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے اور قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہر بچہ میں خداداد صلاحیتیں ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس یتیم بچے کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ ایک مفید شہری کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کر سکے۔

شیئر: