Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

15 لاکھ کا لالچ، بہنوئی نے سالے کو تاوان کے لیے اغوا کر کے قتل کر دیا

بچے کے اہلخانہ کو نامعلوم نمبر سے کال آئی اور 15 لاکھ روپے تاوان مانگا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ 12 برس کے عبید کی کہانی ہے۔ وہ اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جب اس کے ایک قریبی عزیز نے اس کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وہ فی الفور آمادہ ہو گیا اور باتیں کرتا ہوا ملزم کے ساتھ اس کے ٹھکانے پر پہنچ گیا جہاں ملزم کا ساتھی پہلے سے ہی موجود تھا۔ دونوں نے بچے کو قتل کرنے کے بعد اُس کے اہل خانہ کو تاوان کے لیے کال کی مگر وہ پولیس کی نظروں سے زیادہ دیر تک پوشیدہ نہ رہ سکے۔
بچے کے اغوا کی یہ واردات کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون کے مومن آباد پولیس سٹیشن میں 8 مئی کو پیش آئی جب 12 سال کا ایک بچہ لاپتہ ہوگیا جس کی گمشدگی کی اطلاع پولیس سٹیشن میں جمع کروائی گئی۔
بچے کے والد محمد اشیاق احمد نے پولیس کو بتایا کہ 'وہ مدینہ کالونی سیکٹر ٹو اورنگی ٹاون کے رہائشی ہیں۔ ان کا 12 سالہ بیٹا محمد عبید شام 7 بجے سے گھر سے لاپتہ ہے۔ وہ  گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا لیکن رات ہونے پر واپس گھر نہیں لوٹا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'بچے کو پورے علاقے میں تلاش کیا گیا۔ قریبی عزیز و اقارب سے بھی بچے کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ پولیس ان کے بچے کی تلاش میں ان کی مدد کرے۔'  
بچے کے والد کی جانب سے پولیس کو اطلاع دینے کے چند گھنٹوں بعد ہی بچے کے اہلخانہ کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی اور بچے کی رہائی کے لیے 15 لاکھ روپے تاوان طلب کیا گیا۔
بچے کے والد کا کہنا تھا 'عبید کی والدہ کچھ دن قبل متحدہ عرب امارات (دبئی) سے کراچی پہنچی تھیں، وہ اپنی بڑی بیٹی کی رخصتی کے لیے پیسے جمع کرکے پاکستان آئی تھیں۔ وہ دبئی میں روزگار کے سلسلے میں کئی ماہ سے رہائش پذیر ہیں۔ بیٹے کے اغوا کی خبر سنتے ہی پریشان ہو گئیں۔'
نامعلوم نمبر سے فون کال موصول ہونے کے بعد بچے کی والدہ اپنے بیٹے کے بارے میں سوچتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں، اور گھر میں موجود کسی بھی فرد کو فون کال کے بارے میں نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔ بچے کے والد نے اپنی اہلیہ کو حوصلہ دینا چاہا تو وہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوئیں اور الماری سے رقم نکال کر گننے لگیں۔
مقتول کے والد نے بتایا کہ 'وہ بہت پریشان تھیں کیونکہ کال کرنے والے نے ان سے کہا تھا کہ ان کا بچہ اس کے قبضے میں ہے اور وہ اگر اپنے بچے کی رہائی چاہتی ہیں تو فوری طور پر 15 لاکھ روپے کا انتظام کریں۔ کال کرنے والے نے خبردار کیا کہ اس نے اگر پولیس یا  قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو اس بارے میں اطلاع دینے کی کوشش کی تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔'
عبید کے والد نے اپنی بیوی کو دلاسہ دیتے ہوئے اسے قائل کیا کہ 'اس بارے میں پولیس کو فوری اطلاع دینی چاہیے۔'
کچھ دیر کی تکرار کے بعد عبید کی والدہ پولیس کو اطلاع دینے پر رضامند ہو گئیں۔ اس کے بعد اہلخانہ نے نامعلوم نمبر سے آنے والی کال کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی، بچے کی رہائی کے لیے تاوان طلب کرنے پر مقامی پولیس نے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کو کیس میں شامل کیا۔
اے وی سی سی نے کیس کی تفصیلات حاصل کرنے کے بعد تفتیش کا آغاز کیا اور ابتدائی طور پر شک کی بنیاد پر مقتول بچے عبید کے بہنوئی کو حراست میں لیا۔
اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے ایس پی ظفر صدیقی چھانگا کے مطابق شک کی بنیاد پر حراست میں لیے گئے ملزم فرقان نے پولیس کو بتایا کہ 'اس نے اپنے سالے کو اپنے ایک دوست فرحان کے ساتھ مل کر اغوا کیا ہے۔'
پولیس نے گرفتار ملزم کی نشاندہی پر اس کے دوست کو بھی حراست میں لے لیا۔ ملزموں نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ 'انہوں نے بچے کو منگھوپیر کے علاقے میں رکھا ہوا ہے۔'
 ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس ٹیم سی پی ایل سی کے نمائندوں کے ہمراہ جب اورنگی ٹاون پہنچی تو ایک ویرانے میں بچے کی لاش پڑی تھی جسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'بچے کی لاش کو پولیس نے تحویل میں لیتے ہوئے ایمبولنس کے ذریعے عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا جہاں ضابطے کی کارروائی مکمل کی جائے گی اور بچے کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔'  
ایس پی ظفر صدیقی کا کہنا تھا کہ 'مقتول عبید کی والدہ کے پاس دبئی سے واپسی پر 15 سے 20 لاکھ روپے تھے جس کے بارے میں ملزم کو علم تھا۔ ملزم نے بچے کو اغوا کرکے اس کی ماں سے 15 لاکھ روپے حاصل کرنے کی کوشش کی۔'
پولیس نے مزید بتایا کہ 'ملزموں نے بچے کو اغوا کرنے کے فوری بعد ہی قتل کر دیا تھا۔ 12 برس کا مقتول عبید چوتھی کلاس کا طالبعلم تھا اور اپنے بہنوئی کی شناخت کرنے کے قابل تھا۔‘
پولیس نے دونوں ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید شواہد اکھٹے کرنا شروع کیے ہیں۔
مقتول عبید کی غم سے نڈھال والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ 'ان کے بیٹے کو ناحق قتل کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔'

شیئر: