Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن احتجاج: مظاہرین اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکی

حکومتی وفد نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ کوئٹہ چمن شاہراہ کو کھولیں۔ (فوٹو: فیس بک)
افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن میں مظاہرین اور حکومتی مذاکراتی وفد کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکی۔
مظاہرین کی جانب سے شہر کی ناکہ بندی اور مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں جس کی وجہ سے گذشتہ نو دنوں سے سرکاری دفاتر اور پاک افغان بین الاقوامی شاہراہ  بند اور دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں۔
پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خلاف چمن میں مزدور اور چھوٹے تاجروں کی تنظیموں کی جانب سے گذشتہ ساڑھے چھ ماہ سے دھرنا دیا جارہا ہے۔ اس دوران مظاہرین اور فورسز کےدرمیان کئی مرتبہ جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔
4 مئی کو ایف سی قلعہ کے سامنے دھرنا دینے والے مظاہرین اور ایف سی اہلکاروں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں دو مظاہرین ہلاک اور چھ افراد زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد سے چمن میں  صورتحال کشیدہ ہے۔  مظاہرین نے سرحد کی طرف جانے والے راستے اور کوئٹہ کو چمن سے ملانے والی پاک افغان بین الاقوامی شاہراہ کو کوژک کے  مقام  پر پانچ مئی سے بند کر رکھا ہے۔
شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب خالی اور سامان سے لدے اور خالی ٹرک اور ٹرالر سینکڑوں کی تعداد میں پھنس گئے ہیں۔ ڈرائیورز اور مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مظاہرین نے شہر میں پاسپورٹ، نادرا اور بے نظیر انکم سپورٹ  پروگرام اور چمن چیمبر آف کامرس کے دفاتر کو بھی تالے لگا رکھے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی شہروں کے رہائشیوں کو پہلے کی طرح پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے بغیر صرف پاکستانی اور افغان شناختی کارڈ پر آمدروفت کی اجازت دی جائے۔
کشیدہ صورتحال کے پیش نظر حکومت نے کوئٹہ اور دیگر قریبی شہروں سے   پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں پر مشتمل اضافی دستے طلب کر لیے ہیں جبکہ شہر میں دو دنوں سےا نٹرنیٹ سروس بھی معطل کر رکھی ہے۔
مظاہرین نے  ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر سرکاری دفاتر کو بھی بند کرنے کا اعلان کر رکھا تھا تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی اور صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو  کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی  چمن بھیجنے پر مظاہرین نے ضلع کمپلیکس کی تالہ بندی مؤخر کردی۔

صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ پچھلی بار بھی ہم نے حکومتی یقین دہانیوں کے بعد سرحدی راستے اور تجارت بحال کردی تھی۔ (فوٹو: فیس بک)

مذاکراتی کمیٹی نے چمن پہنچنے کے بعد ضلعی انتظامیہ، پاکستانی فوج اور ایف سی کے افسران سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کے  ساتھ اجلاس کیے اور ایک جرگہ منعقد کیا جس میں قبائلی عمائدین، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، چمن کے تاجروں  نے شرکت کی۔
اجلاس میں چمن میں احتجاج، سکیورٹی  صورتحال اور عوامی مسائل سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ حکومت کو چمن کے لوگوں کے مسائل اور تکالیف کااحساس ہے اس لیے حکومتی وفد چمن آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج اور دھرنا ہڑتال وغیرہ عوام کا جمہوری حق ہے لیکن سڑکوں، بازاروں، سرکاری اداروں ڈپٹی کمشنر کے دفتر اور ایف سی قلعہ وغیرہ کو بند کرنے سے مسائل حل نہیں بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ  ہے لہٰذا مظاہرین  قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کرے۔
حکومتی وفد نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ کوئٹہ چمن شاہراہ کو کھولیں کیونکہ سڑک اور کاروبار کی بندش سے لوگوں کو اذیت اور نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
خاص کر بیمار بچوں، بوڑھوں اور مسافر وں کو تکلیف کا سامنا ہے۔
تاہم دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ گذشتہ بار بھی ہم نے حکومتی یقین دہانیوں کے بعد سرحدی راستے اور تجارت بحال کردی تھی مگر ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ ’اس لیے اس بار ہم ایک نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد تک سرحد نہیں کھولیں گے۔‘

ترجمان دھرنا کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس بار ہم ایک نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد تک سرحد نہیں کھولیں گے۔ (فوٹو: فیس بک)

ان کا کہنا ہے کہ ان کا واحد مطالبہ سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے بغیر آمدروفت کی اجازت دینا ہے۔
’پہلے کی طرح بلوچستان کے شہر چمن اور افغان صوبہ قندھار کے شہر سپین بولدک کے رہائشیوں کو صرف شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ کی بنیاد پر آمدروفت کی اجازت دی جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سخت شرائط کے اطلاق سے وہ ہزاروں مزدور اور چھوٹے تاجر بے روزگار ہوگئے ہیں جو روزانہ سرحد پر آمدروفت کرکے اپنا بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔
’ہزاروں لوگوں کی سرحد پر دکانیں ہیں اسی طرح بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو روزانہ  اپنے کندھوں پر سامان کی ترسیل کرتے تھے اب یہ سب گھر بیٹھ کر فاقہ کشی پور مجبور ہوگئے ہیں۔‘
سرکاری اعلامیہ کے مطابق سپیکر عبدالخالق اچکزئی اور صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کی سربراہی میں جرگے میں 10 رکنی مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی جس میں  قبائلی و سیاسی عمائدین بھی شامل ہیں۔
کمیٹی دھرنے کے شرکا،  قبائلی و سیاسی عمائدین اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے ایک متفقہ اور قابل قبول حل کے لیے تجاویز اور سفارشات  وزیراعلیٰ بلوچستان کو پیش کرے گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان یہ تجاویز وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کردیں گے اور حتمی فیصلہ اگلے ہفتے چمن کے دورے کے دوران سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جرگے میں بتائیں گے۔
اس سے پہلے اتوار کو کوئٹہ میں  وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیر صدارت پاک افغان بارڈ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے  اجلاس ہوا جس میں مظاہرین سے مذاکرات کے لیے حکومتی وفد چمن بھیجنے کا فیصلہ ہواتھا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئین سے منافی کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے اور آئین و قوانین کا احترام سب پر واجب ہے۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)

اجلاس میں محکمہ داخلہ کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ 21 اکتوبر 2023 سے اب تک بلوچستان سے 2 لاکھ 20 ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھجوایا گیا ہے۔
سرکاری اعلامیہ کے مطابق سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پاسپورٹ اجرا کی فیس کی معافی کی تجویز پیش کی گئی ہے چمن اور قلعہ عبداللہ میں نئے پاسپورٹ دفاتر قائم ہوچکے ہیں جہاں سے مقامی افراد کو بلا تعطل پاسپورٹ کا اجرا کیا جار رہا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط (ون ڈاکومنٹ رجیم ) وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے جس پر صوبہ عمل درآمد کا پابند ہے۔
اس پابندی سے متاثر ہونےوالے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فی کس 20 ہزار روپے معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق سرحدی علاقوں میں چھوٹی سطح کے متاثرہ کاروباری افراد کی نشاندہی کرکے ان کا ڈیٹا مرتب کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں 1432 جبکہ دوسرے مرحلے میں 3685 افراد کی تصدیق کرکے ان کو فی کس 20 ہزار روپے معاوضہ ادا کیا جاررہا ہے جبکہ دیگر نشادہی کردہ افراد کو رقوم کی ادائیگی کی ضروری کارروائی جاری ہے۔ وفاقی حکومت نے اس مقصد کے لیے 97 کروڑ روپے فراہم کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئین سے منافی کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے اور آئین و قوانین کا احترام سب پر واجب ہے۔
’دھرنا مظاہرین نے حکومت کے خلاف سخت باتیں کیں ہم نے برداشت کیا ہم بات چیت سے معاملات کا حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ریاست کی رٹ قائم رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘

شیئر: