موبائل سمیں بند کرنے سے نہیں نجی کمپنیوں کے خلاف کارروائی سے روکا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ
ایف بی آر نے نان فائلرز کی موبائل سمیں بلاک کرنے کا کہا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انہوں نے موبائل سمیں بند کرنے سے نہیں بلکہ نجی کمپنیوں کے خلاف کارروائی سے روکا تھا۔
جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے حکومت کی جانب سے نان فائلرز کی سمز بند کرنے کے خلاف موبائل فون کمپنی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ موبائل سموں سے متعلق آرڈر کا حکم امتناع خارج کروانا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی سماعت کا جو آرڈر رپورٹ ہوا وہ ایسے نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ سمیں بند کرنے سے نہیں بلکہ نجی کمپنیوں کے خلاف کارروائی سے روکا تھا۔
اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ ٹیکس سے متعلق سیکشن 144 مکمل جواب فراہم کرتا ہے اور جس کی آمدنی کم ہوگی اس پر اطلاق بھی نہیں ہوتا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عام مزدور یا کھوکھا چلانے والے تو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوں گے جس پر اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ انہیں نوٹس نہیں بھیجا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈر یہ ہوتا ہے کہ ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) والے ہر ایک کو اپنے لوپ میں لے لیتے ہیں، کون کون ایف بی آر کو جا کر بتاتا رہے گا لہٰذا اس حوالے سے کوئی قوائد و ضوابط بھی دیں۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 22 مئی تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ ایف بی آر اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے درمیان نان فائلرز کی سمز بند کرنے کے معاملے پر اتفاق رائے کے نتیجے میں ساڑھے تین ہزار صارفین کی موبائل سمز بند کر دی گئی تھیں۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے مزید 5 ہزار نان فائلرز کو ان کی سم بند کرنے کے حوالے سے میسج کے ذریعے خبردار کیا تھا۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 24 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف 52 لاکھ افراد نے ٹیکس ادا کیا ہے۔ ایف بی آر 15 لاکھ نئے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔