اس گاؤں میں رہنے والے 22 سالہ نوجوان ملکیت سنگھ نے انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سیلاب کے بعد ہمارے گاؤں میں کچھ نہیں بچا۔ ہر طرف ریت اور گہرے گڑھے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے یہ جزیزہ نما تھا، اب تو صحرا بن چکا ہے۔‘
اس گاؤں کے کھیت بنجر ہو چکے ہیں اور گاؤں میں چند مکانوں کے تباہ حال ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں۔ صرف دو کشتیاں ہیں جنہیں اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گاؤں میں سڑک نہیں ہے، ریت میں دبے چند ہی راستے بچے ہیں۔
کالووالا گاؤں پنجاب کے ضلع فیروزپور میں واقع ہے جس کی آبادی 300 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں تک رسائی کے لیے سال کے اکثر مہینوں میں کشتی استعمال کی جاتی ہے جبکہ فوج نے ایک عارضی پُل بھی بنایا ہے۔
یکم جون کو پنجاب میں لوک سبھا کے الیکشن کے لیے ووٹنگ کا آخری مرحلہ شیڈول ہے۔ اس گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس مرتبہ ووٹ نہیں ڈالیں گے کیونکہ کالووالا کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہاں کوئی انتخابات ہو رہے ہیں۔
گاؤں میں کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی جھنڈا یا کسی دیوار پر پوسٹر نظر نہیں آتا۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے پہنچنے والے صدمے سے ابھی تک باہر نہیں نکلے۔
سیلاب کے دوران یہ گاؤں باہر کی دنیا سے مکمل طور پر کٹ گیا تھا۔ گاؤں کے مکینوں کو سیلاب میں بچ جانے والے واحد سرکاری پرائمری سکول کی عمارت کی چھت پر کئی ہفتے گزارنا پڑے تھے۔
جب مسلسل مطالبات کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہ ہوئی تو گاؤں والوں نے یہ مطالبہ بھی کر ڈالا کہ انہیں پاکستان سے ملا دیا جائے کیونکہ انہیں تو یہاں انسان تک نہیں شمار کیا جا رہا۔
اس گاؤں میں رہنے والے لکھوندر سنگھ نے بتایا کہ ’ہم کیوں ووٹ ڈالیں، ووٹ نے ابھی تک ہمیں دیا کیا ہے۔ یہاں ہمیں کوئی نہیں پوچھتا، پھر ہم نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ ہی ملا دو۔ شاید کوئی ہماری بات سن لے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میری چار ایکٹر زمین ریگستان میں بدل چکی ہے۔ اگر کسی حکومت کو ہمارے مرنے جینے کی پروا نہیں تو ہم یہاں کیوں رہتے ہیں؟ اس مرتبہ ہمارا ووٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہمارے حالات جاننے کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔‘
ملکیت سنگھ نے بتایا کہ یہاں 45 خاندان آباد تھے جن میں سے 20 خاندان گاؤں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ’اس گاؤں کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 157 ہے۔ پانچویں کلاس سے آگے کے بچوں کو قریبی گاؤں گَٹی راجوک ایک کشتی کے ذریعے جانا پڑتا ہے۔ کئی والدین بچوں کو کشتی سے بھیجنے کی بجائے ان کی تعلیم کا سلسلہ روک دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حالت یہ ہے کہ ہمیں ووٹ ڈالنے کے لیے بھی قریبی گاؤں نہالے والا جانا ہو گا جہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ کشتی ہی ہے۔
کالووالا کے ایک 37 سالہ رہائشی ستنام سنگھ نے کہا کہ ’اس گاؤں میں بچ جانے والے خاندان بھی جلد اسے چھوڑ جائیں گے۔ کالووالا کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سیلاب کے دوران کچھ غیرسرکاری تنظیموں اور گردواروں نے یہاں کھانے پینے کی اشیا بھیجیں۔ کوئی سیاست دان نہیں آیا۔ ہمارے جانور بھوک سے مر گئے، جب اس وقت کوئی نہیں آیا تو اب ووٹ مانگنے بھی کوئی نہ آئے۔‘