Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی نئی فٹبال ٹیم بن رہی ہے: سٹیفن کانسٹنٹائن

 پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم کے ہیڈ کوچ سٹیفن کانسٹنٹائن کا کہنا ہے کہ وہ  ایک نوجوان پاکستانی ٹیم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے  انہیں وقت کے ساتھ ساتھ  زیادہ میچز کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ فیفا کوالیفائر راؤنڈ 2 کے لیے کوالیفائی کیا ہے جہاں اس کا مقابلہ سعودی عرب، اردن اور تاجکستان جیسی بڑی ٹیموں سے رہا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے فٹبال کوچ کا کہنا تھا کہ ’میں نے پہلے دن سے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے والا نہیں ہے۔  ہمیں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ کیا میں ورلڈ کپ میں جانا چاہتا ہوں؟ یقیناً میں یہ چاہتا ہوں۔ اور کیا میں پاکستان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں؟ بالکل۔ لیکن ہمیں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ ‘
پاکستان فیفا کوالیفائرز راؤنڈ 2 میں اپنا اگلا میچ چھ جون کو سعودی عرب کے خلاف اسلام آباد میں کھیلے گا جس کے لیے ٹریننگ کیمپ میں بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔
اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ ان بہترین کیمپوں میں سے ایک ہے جو ہمارے پاس فیڈریشن کی طرف سے  ملاہے۔ وہ پچ جس پر ہم تربیت کر رہے ہیں، سٹیڈیم تک رسائی، جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس ہر کیمپ میں بہت سے نئے چہرے ہوتے ہیں۔ ہم اب تک بہت اچھا ماحول کھلاڑیوں کو دے رہے ہیں۔
’آج کل موسم بہت گرم ہے۔ لیکن ہماری تیاری جاری ہے۔ ہمارے لڑکے علی الصبح میدان میں ہوتے ہیں۔ اور پھر ہم شام کو دوبارہ پریکٹس شروع کرتے ہیں۔ ہمارا مقابلہ بڑی ٹیموں کے ساتھ جس کے لیے ہمیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے اور ہم کر رہے ہیں۔‘
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 61 سالہ سٹیفن کانسٹنٹائن پاکستانی فٹ بال ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ انڈیا، نیپال، ملاوی، سوڈان سمیت کئی ممالک میں کوچنگ کی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
پاکستان فٹبال ٹیم کی گذشتہ سال کمبوڈیا کے خلاف اسلام آباد میں فتح کے بعد فیفا کوالیفائرز راؤنڈ 2 میں جگہ بنائی تھی، گروپ جی میں سعودی عرب، اردن اور تاجکستان شامل پیں۔ پاکستان کو اب تک کھیلے گئے چاروں میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 
خیال رہے کہ فیفا کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 195 ہے۔  سعودی عرب کا ٥٣ واں نمبر ہے جبکہ اردن 71 ویں اور تاجکستان 99ویں نمبر پر ہے۔ 
اس حوالے سے سٹیفن کانسٹنٹائن کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ ہر کوئی جیتنا چاہتا ہے اور ہم بھی۔ لیکن 75 سال کے بعد یا پہلی بار جب ہم نے اس سطح پر کوالیفائی کیا ہے،ایک ایسا وقت آنے والا ہے جہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیے یہ کھیل سیکھنے کے تجربات ہیں۔ جیسا کہ آپ نے بتایا، سعودی عرب ایشیاکپ میں راؤنڈ آف16 میں تک پہنچاتھا، تاجکستان آٹھویں اور اردن فائنل کھیلا تھا۔ تو ہمیں بھی ایک بہت سخت گروپ ملا۔
’لیکن یہ وہ مقام ہے جہاں آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کتنا اچھا یا کتنا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کرنے کے لیے کافی کام ہیں۔‘

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیے یہ کھیل سیکھنے کے تجربات ہیں: سٹیفن کانسٹنٹائن (فوٹوـ پاکستان فٹبال فیڈریشن)

’اسلام آباد میں یورپ جیسی سہولیات‘
پاکستان میں کھیلوں سے متعلق سہولیات اور بالخصوص فٹ بال کے لیے معیاری سہولیات کی دستیابی کے بارے میں قوم ٹیم کے ہیڈ کوچ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اپنے کوچز کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کوچز تیار کرنے کے لیے اے ایف سی کورسز کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں اسلام آباد میں ایک کمپلیکس ہے، جہاں جناح سٹیڈیم ہے۔ وہاں ایک اولمپک سائز کا سوئمنگ پول ہے۔ وہاں ہاکی کورٹس ہیں، والی بال کورٹس ہیں۔ فٹ بال کی متعدد پچز اور کھلاڑیوں کے لیے بھی سہولیات ہیں۔  اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ یورپ میں ایسے ممالک ہیں جہاں وہ سہولیات نہیں ہیں جو یہاں اسلام آباد میں موجود ہیں۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ان سہولیات کو برقرار رکھنے اور ان پر توجہ دیتے ہیں کی ضرورت بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو سہولیات ہمارے پاس ہیں۔ انہیں ہر ایک کے لیے  ٹین سٹار بنانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن انہیں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ تو ہمارے پاس سہولتیں ہیں یا استعمال کرنے کے لیے کچھ سہولیات ہیں۔ جناح سٹیڈیم ایک شاندار جگہ ہے اور یہاں اب لائٹس بھی ہیں۔‘

سٹیفن کانسٹنٹائن پاکستان میں فٹبال کے مستقبل کے بارے میں پرامید دکھائی دیتے ہیں (فوٹو: پاکستان فٹبال فیڈریشن)

’ایک نئی نوجوان ٹیم کی تیاری‘
سٹیفن کانسٹنٹائن پاکستان کی ایک نئی ٹیم تیار کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے۔  
وہ کہتے ہیں کہ ’ کیا میں ورلڈ کپ میں جانا چاہتا ہوں؟ یقیناً میں ایساچاہتا ہوں۔ اور کیا میں پاکستان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں؟ بالکل۔ لیکن ہمیں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں پہلے اپنے خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ایک انڈر ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ہے، ساف ٹورنامنٹ آرہا ہے۔ تو میں اس پر توجہ دوں  گا۔ ہم کوشش کریں گے اور جائیں گے اور جیتیں گے۔ پھر ہمارے پاس اگلے سال ایشین کپ کوالیفائر ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ  ’میں ایک نوجوان ٹیم بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تو آپ دیکھیں گے کہ سینیئر ٹیم میں بھی ہمارے پاس  چار، پانچ انڈر ٹوئنٹی کھلاڑی ہیں۔ لہذا  ہمیں وقت کی ضرورت ہے، ہمیں صبر کی ضرورت ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں زیادہ میچز  کی ضرورت ہے۔ لڑکوں کو کھیل کھیلنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ لیگ ہو یا بین الاقوامی میچز۔ یہی میرا مقصد ہے۔‘
پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت اور فٹبال کے کھیل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سٹیفن کانسٹنٹائن کا کہنا تھا کہ ’کرکٹ ظاہر ہے اس وقت نمبر ایک کھیل ہے۔ لیکن بارہ ممالک ہیں جو کسی بھی سطح پر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ پاکستان ان بارہ ٹیموں میں سے ایک بہتر ٹیم ہے۔ تو یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ ہر کوئی ان کو سپورٹ کرتا ہے۔ یہ قومی فخر  کی باتہے۔ ظاہر ہے ملک کی جیت ہوتی ہے۔ لیکن دو سو گیارہ ممالک ہیں جو فٹ بال کھیلتے ہیں۔ یہ 211 ممالک میں نمبر ایک کھیل ہے۔‘
’ہمیں پاکستان میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم پاکستان میں فٹ بال کو مستقل بنیادوں پر رکھ کر کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

لڑکوں کو کھیل کھیلنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ لیگ ہو یا بین الاقوامی میچز: کوچ (فوٹو: پاکستان فٹبال فیڈریشن)

پاکستان اور دیگر ممالک کو غیر ملکی کھلاڑیوں پر انحصار کیوں کرنا پڑتا ہے؟
پاکستان کے قومی فٹ بال سکواڈ میں اس وقت کئی اوورسیز پاکستانی شامل ہیں، اس حوالے سے پاکستانی ٹیم کے کوچ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس بارہ ٹیموں پر مشتمل کوئی لیگ نہیں ہے جہاں ہمارے کھلاڑی روزانہ ٹریننگ کر سکیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر مستقل بنیادوں پر ٹریننگ کرتے ہیں۔ اوٹس خان، پروفیشنل لیگ ٹو کھیلتے ہیں۔ عیسیٰ سلمان آذربائیجان میں باقاعدہ کھیل رہے ہیں۔عبداللہ اقبال باقاعدہ فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ یوسف بٹ باقاعدہ فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ وہ ہر روز ٹریننگ کرتے ہیں۔ تو ان کی تربیت، ان کی پیشہ ورانہ مہارت، وہ اپنے جسم کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں، وہ کیسے سوتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، یہ سب چیزیں ہیں جو وہ مقامی کھلاڑیوں کو منتقل کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم اپنی ملاقاتوں میں اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ آپ کو کتنی نیند آرہی ہے، آپ کو کس قسم کا کھانا کھانا چاہیے؟ آپ ایک کھلاڑی ہیں، آپ عام انسان نہیں ہیں۔ کھلاڑی عام لوگ نہیں ہیں۔ انہیں خصوصی توجہ، خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔  مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا  ایک ڈائیسپورا کھلاڑی ہے۔ اگر وہ  آتا ہے، اگر وہ ہمارے پاس موجود کھلاڑی سے بہتر ہے، تو ہمیں اسے کھلانا ہوگا۔‘
سٹیفن کانسٹنٹائن پاکستان میں فٹبال کے مستقبل کے بارے میں پرامید دکھائی دیتے ہیں تاہم وہ حکومت سے ضروری سہولیات اور کوچز کی تعلیم و تربیت پر بھی ضرور دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ کھیلتے رہو، کھیلنے کی کوشش کرتے رہو۔ لیکن میرا پیغام ہماری حکومت کو ہوگا۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے، ہمیں سہولیات کی ضرورت ہے، ہمیں کوچ کی تعلیم کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے کوچز کی ترقی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس اچھے کوچ ہیں تو ہمارے پاس اچھے کھلاڑی ہوں گے۔ اگر ہمارے پاس اچھے کوچز نہیں ہیں تو ہمارے پاس اچھے کھلاڑی نہیں ہیں تو اور پھر ہم سوچتے رہتے  کہ پاکستان اے ایف سی فائنلز میں کیوں نہیں ہے؟‘ 
 

شیئر: