Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی ’سوشل میڈیا پوسٹ‘ کے بعد حکومت کا تحریک انصاف سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ

تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کے مطابق عمران خان کا ایکس ہینڈل بیرون ملک سے چلایا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی فیس بک
پاکستان کی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ پر مبنی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال تحریک انصاف سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
27 مئی کو عمران خان کے ’ایکس‘ ہینڈل سے ویڈیو پوسٹ کر کے لکھا گیا کہ ’ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار تھا کون، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان۔‘
تنقید اور ردعمل سامنے آنے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں بالخصوص بیرسٹر گوہر نے اس پوسٹ سے عمران خان کو لاتعلق دکھانے کی کوشش کی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ خود اس اکاؤنٹ کو آپریٹ نہیں کرتے۔
تاہم پاکستانی حکام نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ ریاستی سطح پر اس پوسٹ کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا اور اسے ریاست کے خلاف سوچی سمجھی منصوبہ بندی قرار دیا گیا ہے جس کے تحت ایک ڈاکیومنٹری تیار کی گئی اور اسے عمران خان کے اکاؤنٹ سے اپلوڈ کیا گیا۔
تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیکا ایکٹ تحت کارروائی بھی شروع کر دی ہے اور ان سے تفتیش کے لیے مجسٹریٹ سے اجازت بھی مانگ لی ہے۔
اس سے قبل حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ معیشت کی بہتری اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن تحریک انصاف کی جانب سے صرف بااختیار لوگوں سے مذاکرات کی بات کی جا رہی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب حکومتی سطح پر بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف سے فی الحال مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار جو ماضی میں تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے سربراہ بھی تھے، سے رابطہ کیا تو انھوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ مذاکرات اور مفاہمت پر میرا پختہ یقین ہے۔ پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن کے دھرنے کو مذاکرات سے اٹھایا تھا۔ میں ہی اس کمیٹی کی سربراہی کر رہا تھا۔ جس کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن بنا اور اس نے تحریک انصاف کے منظم دھاندلی کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا تھا۔ جس پر تحریک انصاف نے معذرت تک نہیں کی تھی۔ یہ ماضی کی باتیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سیاست میں مفاہمت اور مذاکرات ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں لیکن مذاکرات کا ایک اصول ہوتا ہے۔ جو فرد بھی ریاست کے خلاف کھڑا ہوگا اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ سانحہ نو مئی ریاست کے خلاف اٹھنا تھا۔ جی ایچ کیو، جناح ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے پر کوئی معافی نہیں دے سکتا۔ فارمیشن کمانڈرز میٹنگ میں جس موقف کا اظہار کیا گیا وہ ہر پاکستانی کا موقف ہے۔‘

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ خود اس اکاؤنٹ کو آپریٹ نہیں کرتے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ان سے دوبارہ استفسار کیا گیا کہ کیا اب حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات نہیں ہوں گے تو اُن کا جواب تھا کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ مذاکرات نہیں ہونے چاہییں لیکن میں آپ کو اصول بتا رہا ہوں کہ ریاست پر حملہ آور ہونے والوں اور ریاست کے خلاف کھڑا ہونے والوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان کی چار اکائیاں ہیں جنھیں مل کر چلنا ہے اور ان کے بہت سے فیصلے مشترکہ اور وفاق سے جڑے ہوئے ہیں لیکن خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کر دیا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ غیرآئینی ہے لیکن یہ خلاف معمول ضرور ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ انھیں اپنا بجٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔ جو تخمینے انھوں نے لگائے ہیں جب وہ پورے نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے وسائل ہی نہیں ملیں گے تو ایسے میں سارا بجٹ ہی بدلنا پڑے گا۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ وفاق سے مقابلہ کرنے کے بجائے وفاق اور ریاست کے ساتھ چلتے تاکہ صوبے کے عوام کے لیے بہتری ہوتی۔‘

شیئر: