Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ، ’شکریہ مسٹر عمران خان آپ کی اچھی معاونت کا‘

جمعرات کو پٹیشنرز کے وکلا اور عمران خان کے حتمی دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
خیال رہے گذشتہ سال ستمبر میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینج نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
نیب ترامیم پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے چیلینج کی تھی۔
ان ترامیم کو کالعدم قرار  دینے کے خلاف اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپیلیں دائر کی تھیں۔
ان اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر  بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل تھے۔
جمعرات کو پٹیشنرز کے وکلا اور عمران خان کے حتمی دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ جلد سنائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر کوئی فریق اگر دستاویزات جمع کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے۔

 عمران خان اور چیف جسٹس کا مکالمہ

بانی پی ٹی آئی نے اپنے دلائل کے شروع میں کہا کہ وہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

’جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا۔ مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ کے تحفے کی قیمت کم لگائی۔ دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔ میں کہتا ہوں نیب کا چیٸرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔‘

عمران خان نے کہا کہ وہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ (فوٹو:  ایکس)

عمران خان نے کہا کہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ غیرذمہ دار ہیں اس لیے لائیو سٹریمنگ نہیں دکھائی جاسکتی۔
’کہا گیا میں نے پوائنٹ سکورنگ کی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ سکورنگ کی؟‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس کا فیصلہ ہوچکا‘ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے۔ اس پر آپ نظر ثانی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔‘
جسٹس امین الدین خان نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا۔ آپ صرف کیس پر رہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے۔ جسٹس من اللہ نے پوچھا کہ عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔

سماعت کے دوران بینچ کے ممبران  اور عمران خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ (فوٹو: ایکس)

27  سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا۔ غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا۔
آخر میں چیف جسٹس اور عمران خان مین دلچسپ مکالمہ ہوا۔ عدالتی کاروائی کے اختتام پر چیف جسٹس نے کہا ’شکریہ مسٹر عمران خان آپ کی طرف سے اچھی معاونت ملی‘
اس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’تھینک یو۔‘

نیب ترامیم کیا تھیں؟

گذشتہ پی ڈی ایم حکومت نے نیپ آرڈیننس میں دو درجن سے زائد ترامیم کی تھیں۔
 ان ترامیم کے مطابق نیب پچاس کروڑ روپے سے کم مالیت کے مقدمات کی تفتیش نہیں کرے گا۔ نیب فراڈ اور بدعنوانی کے صرف ایسے مقدمات کی تفتیش کرے گا، جن میں متاثرین کی تعداد ایک سو سے زائد ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ نیب سے ٹیکسوں میں ہیر پھیر اور عدم ادائیگی  پر کارروائی کرنے کا اختیار بھی لے لیا گیا تھا  اور متعدد ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

شیئر: