Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی رہنما پر تشدد کا معاملہ، خیبر پختونخوا حکومت اور بیوروکریسی آمنے سامنے

علی زمان پر حملے کے الزام میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما پر تشدد کے معاملے نے صوبائی حکومت اور بیوروکریسی کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور انصاف لائرز فورم کے سیکریٹری جنرل علی زمان ایڈووکیٹ 8 جون کو فقیرآباد پشاور میں نامعلوم افراد کی جانب سے کیے گئے حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔
نامعلوم افراد نے ان پر ڈنڈوں سے تشدد کیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، بعدازاں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال جا کر پارٹی رہنما کی خیریت دریافت کی۔  
علی زمان پر حملے کے الزام میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے شوہر کے خلاف دہشت گردی سمیت اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا مگر تاحال کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔
ان کی مدعیت میں اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ فقیرآباد میں درج کی گئی جس میں پشاور کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سمیرا صبا اور ان کے شوہر قدیر خان کو نامزد کیا گیا۔

خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو کیوں نامزد کیا گیا؟

علی زمان ایڈووکیٹ 8 فروری کے انتخابات میں پی کے 73 پشاور سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔ علی زمان ایڈووکیٹ نے الزام لگایا کہ خاتون ریٹرننگ افسر سمیرا صبا نے نتائج تبدیل کرکے ان کو ہروایا۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے موقف اپنایا کہ انہوں نے خاتون افسر کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا جبکہ مبینہ طور پر نتائج تبدیل کرنے پر خاتون ریٹرننگ افسر کو عدالت میں بھی طلب کیا گیا تھا۔
علی زمان ایڈووکیٹ نے پولیس کو اپنے بیان میں مزید بتایا کہ ان پر تشدد کرنے والے بھی خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے شوہر قدیر خان تھے جنہوں نے ان کو عدالت میں دھمکی بھی دی تھی۔
پی ٹی آئی کے صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عرفان سلیم کے مطابق علی زمان نے مظاہروں میں خاتون ریٹرننگ افسر کا نام لیا تو ان کے شوہر نے دھمکی آمیز کال کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن افراد نے علی زمان کا مینڈیٹ چوری کیا انہی لوگوں نے علی زمان پر تشدد بھی کرایا۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق ’علی زمان پر ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’علی زمان انتہائی مشکل وقت میں بھی ظلم کے خلاف ڈٹے رہے۔ انپوں نے 9 مئی کے واقعات میں گرفتار 400 سے زائد کارکنوں کی ضمانت کروائی اور پارٹی رہنماؤں کو قانونی معاونت بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔

خاتون افسر کی گرفتاری کیوں نہ ہو سکی؟

خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے معاملے پر حکومت اور بیوروکریسی دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے ہیں۔ انتظامیہ کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ خاتون افسر کے معاملے پر ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر افسران نے اپنے خدشات اور تحفظات چیف سیکریٹری تک پہنچا دیے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی ہے مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
اس تمام تر معاملے میں پولیس پر دباؤ بہت ہے کہ وہ کیس کے ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش کو آگے بڑھائے، تاہم پولیس حکام کے مطابق نامزد ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے ضمانت لے رکھی ہے۔

صوبائی حکومت کا موقف

اس معاملے پر صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ علی زمان کو قتل کرنے کی نیت سے بیس بال بیٹ سے مارا گیا تھا، تاہم خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔

وزیراعلٰی نے ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی ہے مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ علی زمان پر حملے کی ایف آئی آر درج ہے جس میں ملزمان نامزد کیے جا چکے ہیں، اب تفتیش ہو رہی ہے اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
’علی زمان پارٹی کے وفادار کارکن ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا، ان پر ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ہم کسی کا نام نہیں لے سکتے کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے، تفتیش کے بعد ہی حقیقت سامنے آئے گی۔
واضح رہے کہ پشاور کے 8 صوبائی حلقوں میں الیکشن نتائج میں تبدیلی کا الزام لگا کر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ڈپٹی کمشنر (ڈی آر او) سمیت متعلقہ ریٹرننگ افسران کے خلاف دھرنا بھی دیا تھا۔ 

شیئر: