Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم مودی کا تیسرا دور حکومت، کابینہ میں مسلمانوں کا کوئی نمائندہ موجود نہیں

بی جے پی تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل (متحدہ) کی حمایت سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی (فائل فوٹو: اے پی)
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی سابق کابینہ کے بیشتر ارکان کو برقرار رکھا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق پالیسی کے تسلسل کا اشارہ دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں وہ اقلیتوں کے حوالے سے زیادہ مفاہمت پر مبنی پالیسی کی توقع کر رہے ہیں۔
اپریل کے وسط سے جون تک جاری رہنے والے طویل مراحل پر مشتمل عام انتخابات اور حلف اٹھانے کے ایک روز بعد نریندر مودی نے پیر کو اپنی کابینہ کے ارکان کا ناموں کا اعلان کیا۔
وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو انڈیا کی خارجہ پالیسی کا وزیر برقرار رکھا گیا ہے، امیت شاہ وزیر داخلہ، نرملا سیتارامن وزیر خزانہ اور راج ناتھ سنگھ وزیر دفاع کے طور پر اپنے اپنے پرانے عہدوں پر کام کریں گے۔
اپنے دوبارہ تقرر کے بعد تبصرہ کرنے والے پہلے وزیر جے شنکر تھے، جنہوں نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ’وزیراعظم مودی کی خارجہ پالیسی‘ چین کے ساتھ سرحدی مسائل کو حل کرنے اور ’پاکستان کے ساتھ برسوں پرانے سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔‘
جوہری ہتھیاروں سے لیس انڈیا اور چین کے درمیان 3 ہزار 800 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں انہوں نے 1962 میں جنگ لڑی تھی۔ 
سنہ 2020 کے بعد سے دونوں ممالک کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے ہیں اور کشیدگی کی یہ صورت حال گذشتہ پانچ دہائیوں میں بدترین ہے۔
پاکستان جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک پڑوسی بھی ہے، کے ساتھ انڈیا تین جنگیں لڑ چکا ہے، جن میں سے دو جنگیں ہمالیہ کے علاقے میں متنازع کشمیر کے علاقے کے کنٹرول پر ہیں۔
نئی دہلی میں اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے نائب صدر پروفیسر ہرش وی پنت نے وزیراعظم نریندر کی کابینہ اور حکومت کی آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے عرب نیوز سے گفتگو کی۔
ان کے مطابق ’جس طرح سے کابینہ تشکیل دی گئی ہے اور جس طرح سے ڈاکٹر جے شنکر کو دوبارہ وزیر خارجہ کے طور پر ذمہ داریاں دی گئی ہیں اس کا مطلب ہے کہ انڈین خارجہ پالیسی میں پاکستان کو زیادہ اہمیت نہ دینے اور چین کے ساتھ مقابلے کی پرانی حکمتِ عملی جاری رہے گی۔‘

ماہرین کے مطابق مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان اس بات کا اشارہ ہے کہ مودی غیر سیکولر انداز جاری رکھیں گے (فائل فوٹو: اے پی)

تیسری بار جیتنے والے دوسرے انڈین وزیراعظم بننے کے باوجود نریندر مودی کو اپنی کابینہ کی تشکیل کے لیے علاقائی اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 543 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ میں 240 نشستیں جیتیں اور 2014 کے بعد پہلی مرتبہ اپنی واضح اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ 
بی جے پی دو اتحادی ارکان کی حمایت سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ تیلگو دیشم پارٹی جنوبی ریاست آندھرا پردیش جبکہ جنتا دل (متحدہ) پارٹی مشرقی ریاست بہار میں اثرورسوخ رکھتی ہے۔
بی جے پی کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے پاس 293 سیٹیں ہیں جب کہ حکومت بنانے کے لیے 272 ارکان کی ضرورت تھی۔
حکومت کی جانب سے کوئی بھی اہم وزارت اتحادیوں کو نہیں دی گئی۔
وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں مختلف علاقوں اور قومیتیوں کو نمائندگی دی گئی ہے، تاہم 20 کروڑ کی آبادی رکھنے والے مسلمانوں کا نمائندہ موجود نہیں ہے۔
کاکتیہ یونیورسٹی تلنگانہ میں معاشیات کے سابق پروفیسر وینکٹ نارائنا کہتے ہیں کہ مودی کی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ وہ اپنے غیر سیکولر انداز حکومت کو جاری رکھیں گے اور ماضی کی طرح  اقلیت مخالف سیاست پر عمل پیرا رہیں گے۔

شیئر: