Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بینک سے قرض لے کر گاڑی خریدنے کا رجحان کم کیوں ہو رہا ہے؟

’رواں سال مئی میں بینکوں کے ذریعے گاڑیوں کی خریداری میں 22.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں گذشتہ 23 ماہ سے بینکوں سے قرض لے کر گاڑی کی خریداری کرنے والے صارفین کی تعداد میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
شرح سود میں اضافے اور بینک کی سخت شرائط کی وجہ سے رواں سال مئی میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’بینکوں کے ذریعے گاڑیوں کی خریداری میں 22.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
آٹو سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’حکومتی سطح پر مقامی صنعت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے جب کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔‘
’اس کے ساتھ ہی بینکوں کی سخت شرائط اور قرض کی رقم محدود ہونے کی وجہ سے صارفین چاہتے ہوئے بھی بینکوں کے ذریعے گاڑیاں نہیں خرید سکتے۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ’رواں سال مئی میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضہ جات کا حجم 233 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ گذشتہ برس مئی کے مقابلے میں 22.5 فیصد کم رہا۔‘
’مئی 2023 میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں نے 300 ارب روپے کے قرضے دیے تھے۔ اسی طرح رواں سال اپریل کے مقابلے میں مئی میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کی جانب سے قرضوں کے اجرا میں ماہانہ بنیادوں پر 1.2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
 ان اعداوشمار میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’اپریل 2024 میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں نے 236 ارب روپے کے قرضے جاری کیے تھے جب کہ مئی 2024 میں 233 ارب روپے کے قرضے جاری کیے گئے ہیں۔‘
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گ‍ذشتہ دو سال سے پاکستان میں بینکوں سے قرض لے کر گاڑیوں کی خریداری میں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں صارفین ضرورت کے باوجود گاڑی کیوں نہیں خرید پا رہے؟‘

’گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے مقابلے میں ان کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے تو پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس تیزی سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں ان کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
’ایک عام 800 سی سی گاڑی بھی اب 10 لاکھ روپے سے اوپر جاچکی ہے، 660 سی سی کی نئی آلٹو گاڑی کی قیمت 25 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ یہ وہ گاڑیاں ہیں جو عام صارف خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔‘
 ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’گاڑیوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں اور بینکوں کی سخت شرائط کی وجہ سے صارفین استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘
’پاکستان میں مرکزی بینک نے تمام بینکوں کو ایک فارمولہ دیا ہے جس کے تحت وہ گاڑی خریدنے کے لیے قرض دیتے ہیں۔ اس فارمولے اور ملک میں موجود گاڑیوں کی قیمتوں میں اتنا بڑا فرق ہے کہ کسی بھی خریدار کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ اس فارمولے کے تحت باآسانی گاڑی خرید سکے۔‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ ’گاڑی خریدنے والے کو نئی گاڑی خریدنے سے پہلے اپنی طرف سے بہت بڑی رقم جمع کروانا ہوگی جس کے بعد ہی وہ کار فنانسنگ کے پروگرام کا حصہ بن سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی سود کی شرح بھی گاڑیوں کی خریداری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

 ’رواں سال مئی میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کا قرض گذشتہ برس مئی کے مقابلے میں 22.5 فیصد کم رہا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’مرکزی بینک کی جانب سے حال ہی میں شرح سود میں کمی کی گئی ہے لیکن اب بھی یہ 20 فیصد سے زیادہ ہے۔حکومت ملک میں گاڑیوں کی اسمبلنگ کے بجائے مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرے۔‘
ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ ’اس سے جہاں ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے وہیں مقامی طور پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے ان گاڑیوں کی لاگت میں بھی کمی آئے گی اور صارف کو سستے داموں گاڑی میسر ہوگی۔‘
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک تشویش ناک بات ہے کہ ملک میں بینکوں سے قرض لے کر گاڑیوں کی خریداری میں کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں آٹو سیکٹر پر خاص توجہ دی جائے۔‘
’مقامی سطح پر گاڑیاں مینوفیکچر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک کر کے اگر ملک میں چلتی صنتعوں کو نظرانداز کیا جائے گا تو آنے والے دنوں میں ہم مکمل طور پر امپورٹ کے محتاج ہو جائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج ایک جانب ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے تو دوسری جانب امپورٹ کی ایسی پالیسی نظر آتی ہے جو مقامی صنعتوں کے لیے خطرہ ہے۔ ہر چیز اگر بیرون ملک سے درآمد کی جائے گی تو ملکی صنعتوں کا کیا ہوگا؟‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں گاڑیاں مینوفیکچر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’آٹو سیکٹر کو اہمیت دینے سے ناصرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ آنے والے دنوں میں ملک میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی ہوگی۔‘
کراچی کے جمشید روڈ پر واقع شو روم کے مالک شاہد قاسم کے مطابق ’گذشتہ کچھ عرصے سے نئی گاڑیوں کے مقابلے میں پرانی گاڑیوں کی خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘
’بینکوں کی جانب سے سخت شرائط کے بعد اب ایسی کئی لیزنگ کمپنیاں مارکیٹ میں کام کر رہی ہیں جو صارفین کو کم شرح سود پر گاڑیاں فروخت رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ڈاکیومینٹیشن بھی آسان ہے اور پراسیس بھی جلد مکمل ہو جاتا ہے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے خریدار نئی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ استعمال شدہ گاڑیاں بھی خرید رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ہائبرڈ اور 660 سی سی کی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کو خریدنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قسطوں میں ادائیگی میں مشکلات کی صورت میں یہ گاڑیاں فوری طور پر فروخت ہو جاتی ہیں۔‘

شیئر: