عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے ، وہ عدالت کے دائر ہ اختیار میں ہے مگر آج احتساب کا نعر ہ لگانے والے احتساب کی لپیٹ میں آگئے
* * * *سید شکیل احمد* * * *
کہتے ہیں کہ ہر برائی کے پیچھے اچھا ئی بھی پنہا ں ہو تی ہے ،اس لئے اچھاہوا بلکہ بہت ہی اچھا ہوا کہ حکمر ان کا احتساب شروع ہو ا ۔ کہنے کو حکمر ان وقت کا موقف ہے کہ یہ احتساب نہیں بلکہ ان کے خاند انی کا روبار کو تباہ کیا جا رہا ہے ، بات دراصل چلی تھی پا نا مہ لیکس سے جس میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے نا م شامل نہیں تھے مگر میا ں برداران کو اپنی 3 نسلو ں کا حساب چکا نا پڑ رہا ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے ، کوئی بھی ہو پا کستان جیسے ملک میں حساب کتا ب کھر ا ہی ہو نا چاہیے کیو ں کہ اس ملک کو بنانے میں خالصاًعوامی جدوجہد اور ان ہی کی قربانیوںکا ہا تھ ہے اور کسی کو عوام سے ہا تھ کرجانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی چنا نچہ شریف برادران کو یہ درد نہیں ہونا چاہیے کہ بات پانامہ لیکس سے بڑھا کر ان کی3 نسلو ں تک پھیلا دی گئی ہے۔ اگر ٹھنڈے دل سے دیکھا جا ئے تو یہ سب کچھ پا کستان کے مفاد میں ہے۔ اگر آج نہیں تو کل پاکستان کے مفاد میں پو ری طرح ہو گا ۔ پا کستان کی تا ریخ جا نے والو ں کو معلو م ہے کہ پاکستان میں شروع ایام میںجو سیاست کھیلی جا تی تھی اس میں بیور و کر یسی کے ہاتھ کا بڑا ذکرہو تا تھا مگر بعدمیں دیر سے یہ بات سمجھ آئی کہ بیوروکریسی تواللہ میاں کی گائے تھی ،اصل کھلا ڑی تو اور کوئی ہی تھے ، جن کے بارے میں نواز شریف کو بتایا گیا کہ ان کیخلا ف ایک مائنڈ سیٹ ہے اور وہ سن کر چین بچیں بھی ہو ئے اور پیشی سے واپسی پر اپنے پکے پکائے بیان کی کئی سطر و ں پر لکیر کھینچ دی اور فرما یا کہ اب کٹھ پتلی کی ڈوریں کھینچنا بند کر دیاجائے ورنہ ملک کو نقصان پہنچے گا اور جمہوریت تباہ ہو کر رہ جا ئیگی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کی گئی ، ما ضی گوا ہ ہے کہ کٹھ پتلیو ں کی تھر ک سے ملک کتنا ہی نقصان اٹھا چکا ہے اور عوام اچھی طرح آگاہ ہے کہ کٹھ پتلی تماشا کون کر رہا ہے ۔
بات ہو رہی تھی کہ ہر برائی کی پشت پر اچھا ئی بھی جنم لیتی ہے ، قیا م پاکستان کے بعد ہی سے ملک میں انتقامی سیا ست کا آ غاز ہو چلا تھا اور یہ منحوس جذبہ اس قدرمستحکم ہوگیا تھا کہ سیا سی مخالفت کی بنا پر نہ صرف مخالفین پر تشدد روا رکھا جا تا تھا بلکہ زندگی سے بھی کھیلاجا تا تھا ، چنانچہ لیاقت علی خان سے لیکر بھٹو مر حوم کے دور تک ایک لمبی فہر ست ہے کہ سیاسی مخالفت کے جر م میں مخالف کی زندگیو ںکو ختم دیا گیا ، خاص طور پر ایو ب خان اور بھٹو کے دور میں سیاسی انتقام عروج پر نظر آتاہے۔ بھٹوکو اپنے ہی سیاسی حلیف احمد رضا خاں قصوری کے والد نو اب محمد احمد کے قتل کے الزام میں عدالت سے سزائے مو ت ہوئی ۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ عدالتی قتل تھا یا اسکے کیامحرکا ت تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس دن کے بعد سیا سی قتل اور بد ترین سیا سی تشدد کا جو سلسلہ ٹوٹا تو آج تک ٹو ٹا ہو ا ہے ۔
صرف ایک مثال سامنے آتی ہے ،وہ نو اب اکبر بگٹی کے قتل کی ہے اور اب یہ معاملہ بھی عدالت میں ہے ۔ سیا سی انتقام سے ہٹ کر پاکستان کا دوسرا اہم ترین مسئلہ کر پشن اور کر پٹ لو گو ں کا احتساب رہا ہے ۔یہ کہا جا تا رہا کہ جب تک شفاف احتساب نہیں ہو گا تب تک پا کستان کی قسمت نہیں بدل سکتی ۔بات درست ہے جس سے کسی کو اختلا ف نہیں۔ پاکستان کے عوام کئی دہا ئیوں سے احتساب کے منتظر ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ عوام کے جذبات سے یہا ں بھی کھلواڑ ہو تا رہا ، کبھی سول حکومتو ں کے احتساب کے نام پر بستر بوریا گول کر دیا جا تاہے، کبھی اپنے اقتدا ر کی طوالت کیلئے احتساب کا ڈھو نگ رچایا جاتا رہا ہے ۔ معاملہ نیت کا ہو تا ہے چنا نچہ یہ ڈھو نگ بھی ڈھو نگ ہی رہا ۔ عدالت اعظمیٰ نے پانا مہ لیکس کے مقدمے کو سلجھا نے کی غرض سے جے آئی ٹی بنا دی جس کا عمل ایک محتسب کا سا ہو گیا کہ وہ حقائق تلا ش کر ے۔ حقائق ہی سب سے بڑ ا احتساب ہو تا ہے۔ گو آف شور کمپنیو ں کے معاملے میں دیگر پاکستانیوں کے نا م بھی ہیں۔
پانا مہ لیکس کے علاوہ بھی آف شور کمپنیو ں کا ذکر سامنے آیا ہے جس میں آب زم زم اور کو ثر وتسنیم سے نہا ئے ہو ئے سیا ست دان عمران خان اور ان کے رفیق خاص جہا نگیر ترین بھی شامل ہیں ۔یہا ں یہ وضاحت ضرو ری ہے کہ نو از شریف کی پیشی تک یہ گما ن ہو رہا تھا کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے استثنیٰ چاہیں گے اور ان کی ہمت نہیں ہو گی کہ وہ جے آئی ٹی کا سامنا کر سکیں ، وہ پیش ہو نے کو گول کر جائیں گے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کئی سیا ست دان اس پیشی کو جنو ن کی حد تک سیاسی کھیل بنا ئے ہو ئے تھے مگر جے آئی ٹی کی تشکیل سے نواز شریف اور ان کے خاند ان کے افراد کے پیش ہو نے تک مسلم لیگ ن نے جو قدم اس جانب رکھے، ان میں کا فی احتیا ط نظر آئی۔ کہنے کو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے پیش ہو کر ملکی تاریخ میں ایک تاریخ رقم کر دی ہے مگر دیکھا جا ئے یہ تاریخ رقم کر نا اپنی جگہ مگر انہو ں نے مستقبل کی سیا ست میں ان سب کو ما ت دی ہے جو احتساب احتساب کا نعرہ تولگاتے تھے زبان سے مگر دل سے احتساب نہیں چاہتے تھے ۔ نو از شریف نے جو قدم اٹھایا ، اس سے ان کی امید و ں پر پانی پھیر دیا ہے اور وہ سیاست میں کا میا ب ترین کردار بن گئے ہیں کیو نکہ انھو ں نے احتساب کے شکنجے میں سب کوپرو دیا ہے ۔ عدالت جی آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں کیا فیصلہ دیتی ہے ، وہ عدالت کے دائر ہ اختیار میں ہے مگر آج احتساب ، احتساب کا نعر ہ لگانے والے مستقبل میںاحتساب کی لپیٹ میں آگئے ہیں ۔
افسو س اس امر پر ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی تشکیل سے لے کر اب تک کی کا رکر دگی تک خود کو غیر جانبداری سے محفو ظ نہ رکھا اور اس پر عوام پر انگلیا ں اٹھا نا شروع ہوگئیں۔ عدالت کے حکم پر جوعمل شروع ہو ا ،اس کو100فی صد سے بھی زیا دہ شفا ف رکھنے کی ضر ورت تھی۔ جے آئی ٹی نے حکومت کی جانب سے مداخلت اور رکاوٹیں حائل کرنے کی شکا یت کی ہے ۔ تو قع ہے کہ دونوں جانب سے شکا یت کاجا ئزہ لیا جائے گا۔ میا ں برادارں کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ وزیر اعظم ہا ؤس کے ٹیلی فو ن ٹیپ کیے جا رہے ہیں۔ اس شکا یت کا بھی جا ئزہ لینا ضروری ہے۔ اسی طر ح شہزادہ حمد بن جا سم کی جانب سے ایک انٹرویو میںکہا گیا ہے کہ وہ خط کی تصدیق کر تے ہیں۔ چونکہ اخباری بیان کو ریکا رڈ کا حصہ نہیں بنا یا جا سکتا ،اس لئے بہتر ہے کہ جے آئی ٹی ان کا بیان ریکا رڈ کر ے اور پو چھ تاچھ کر ے۔ شنید تھی کہ کمیٹی کے ارکا ن قطر کا دورہ کریں گے ۔اس کے ساتھ یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ بعض مخصوص خفیہ ادارو ںکے اہلکا رو ں کا اس بلڈنگ میں گہر ا عمل دخل ہے بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ کنٹرول ہے ،ایسا کیو ں ہے ،اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کہ ان کو یہا ں کس کے حکم پر تعینا ت کیا گیا ہے یا ازخود انھو ں نے کنڑول سنبھال لیا ہے ۔