Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کی سب سے بڑی ریل ڈکیتی میں جب ڈاکو ناسا کی مدد سے پکڑے گئے

ڈاکوؤں نے چناسلم اور وردھاچلم ریلوے سٹیشن کے درمیان ڈکیتی کا منصوبہ بنایا تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
برصغیر کے لوگوں کے لیے ٹرین کا سفر ایک زمانے تک جتنا دلفریب رہا ہے اتنا ہی وہ مہمات سے بھی بھرا رہا ہے۔ چنانچہ بے شمار فلموں میں ٹرین کے مناظر آج بھی فلمائے جاتے ہیں۔
آپ نے فلم ’شعلے‘ یا ’گنگا جمنا‘ دیکھی ہو گی جس میں ٹرین کو لوٹنے کی کوشش نظر آتی ہے۔
لیکن ہم یہاں کسی ریل گاڑی کے سفر کی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی ٹرین حادثے کی بلکہ ہم ایک ایسی ٹرین ڈکیتی کی بات کر رہے ہیں جو انڈیا کی تاریخ میں رقم کے لحاظ سے سب سے بڑی ڈکیتی کہی جا سکتی ہے۔
اگرچہ انڈیا میں سب سے پہلی اہم ٹرین ڈکیتی کاکوری ڈکیتی ہے جس میں رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے مجاہدین آزادی شریک تھے اور یہ آج سے کوئی 100 برس قبل ہوئی تھی لیکن 2016 میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ہونے والی ڈکیتی انڈیا کی سب سے بڑی ڈکیتی کہی جاتی ہے۔
ٹرین ڈکیتی کی کہانی
یہ 8 اگست 2016 کی بات ہے جب ریاست تمل ناڈو کے شہر سیلم کے انڈین اوورسیز بینک سے ایک بڑی رقم چنئی کے ریزرو بینک آف انڈیا میں منتقل کی جا رہی تھی۔ پیسوں کی حفاظت کے لیے 18 ہتھیار بند پولیس اہلکار بھی ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔
ایک ریلوے پارسل وین وی پی ایچ 08831 سیلم سے چنئی جانے والی ایگمور ایکسپریس ٹرین سے منسلک تھی۔ ٹرین سیلم جنکشن سے رات 9 بج کر پانچ منٹ پر روانہ ہوئی اور نو اگست کو صبح 3 بج کر 25 منٹ پر ایگمور پہنچی۔
پارسل وین کو دوپہر 11 بجے کے قریب آر بی آئی حکام نے کھولا تو انہیں پتہ چلا کہ چھت میں سوراخ کرکے وین سے پانچ کروڑ 78 لاکھ  روپے چوری کر لیے گئے ہیں۔ اس بوگی میں کل 342 کروڑ روپے منتقل کیے جا رہے تھے۔
ریلوے پولیس فورس (آر پی ایف) نے رپورٹ درج کر کے جی آر پی سے مدد طلب کی۔
Crime Branch CID of Tamil Nadu police cracks Salem train robbery case - The  Hindu
ٹرین کی چھت میں سوراخ کر کے وین سے پانچ کروڑ 78 لاکھ  روپے چوری کر لیے گئے تھے (فائل فوٹو: سی آئی ڈی)

ریلوے حکام نے شبہ ظاہر کیا کہ لوڈنگ پیٹرن اور ٹرین کے روٹ کے بارے میں علم رکھنے والا کوئی شخص اس ڈکیتی میں ملوث ہو سکتا ہے۔
کئی ماہ کی کوشش کے باوجود ڈاکے کا سراغ نہ ملنے پر جانچ انڈین تفتیشی ادارے سی آئی ڈی کے سپرد کر دی گئی۔
انڈین نیوز چینل ’آج تک‘ کے مطابق سی آئی ڈی نے امریکی خلائی ایجنسی ناسا سے مدد لی اور ناسا کے ذریعے ہی انہیں پتا چلا کہ ڈکیتی کس علاقے میں ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ انہیں سیٹلائٹ امیجز سے یہ بھی پتا چلا کہ اس ڈاکے میں 11 افراد شامل تھے۔ یہ لیڈ سی آئی ڈی کی ٹیم کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی۔
اس کے بعد سی آئی ڈی نے واقعے کے دن کے بعد سے اس علاقے میں سرگرم لاکھوں موبائل کالز کی تفصیلات کی جانچ کی۔ جو نمبر انہیں مشکوک لگے، ان کا بغور جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے بہت سے مشکوک نمبرز وسطی ریاست مدھیہ پردیش کی آئی ڈی پر تھے جبکہ کچھ ریاست بہار کے تھے۔
یہاں سے سی آئی ڈی کی ٹیم نے مدھیہ پردیش میں چھاپے مارنے شروع کیے اور ایک ایک کر کے آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
Great train robbery: How robbers cut out roof section of coach before train  reached electric lines - India Today
انڈیا کی تاريخ میں ہونے والی سب سے بڑی ٹرین ڈکیتی کا معمہ 730 دن بعد یعنی 30 اگست 2018 کو حل ہوا (فائل فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مدھیہ پردیش کے پارڈی گینگ نے 1800 کلومیٹر دور تمل ناڈو میں چلتی ٹرین کی چھت کاٹ کر پانچ کروڑ 78 لاکھ روپے کی ڈکیتی کی تھی۔
اس دوران انہوں نے پورے 730 دن کام کیا اور تقریباً دو ہزار لوگوں سے پوچھ گچھ کی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں کالز کی تفصیلات اکٹھی کیں۔
بہرحال انڈیا کی تاريخ میں ہونے والی سب سے بڑی ٹرین ڈکیتی کا معمہ 730 دن بعد یعنی 30 اگست 2018 کو حل ہوا۔

ڈاکے میں ملوث گروپ

دی نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سی آئی ڈی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بی دنیش اور روہن پارڈی کو چنئی جاتے ہوئے ٹرین سے گرفتار کیا گيا۔
ان کے مطابق پارڈی گروپ کے لوگ مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی، ہریانہ، گجرات اور مہاراشٹر میں مختلف معاملات میں ملوث رہے ہیں۔
ان کے گروپ کے لوگ عام طور پر سڑکوں کے کنارے یا ریلوے پٹریوں کے قریب عارضی پناہ گاہیں بنا کر رہتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور گلیوں میں دکانداروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور جرم کو انجام دینے سے پہلے جائے وقوع کی ریکی کرتے ہیں۔
Chennai: Salem-Chennai train heist: CB-CID arrests 5 more accused |  Chennai: Salem-Chennai train heist: CB-CID arrests 5 more accused
اس گینگ سے وابستہ افراد جرم کو انجام دینے سے پہلے جائے وقوع کی ریکی کرتے تھے (فائل فوٹو: دکن کرونیکل)

ڈاکوؤں نے اس رقم کا کیا کیا؟

آٹھ اگست کو جو رقم حاصل کی گئی تھی، ان میں زیادہ تر 500 اور 1000 کے نوٹ تھے۔ پھر 8 نومبر 2016 کو حکومت ہند نے اچانک ایک اعلان کے ساتھ راتوں رات ان کرنسی نوٹوں پر پابندی لگا دی اور انہیں کالعدم قرار دیا۔
گرفتاری کے بعد ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے بہت سی رقم دریا برد کر دی جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے تقریباً دو کروڑ روپے جلا دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد وہ اتنی بڑی رقم بینک میں ڈال سکتے تھے اور نہ ہی ان کو بدلوا سکتے تھے۔
سی آئی ڈی کی ٹیم کو ان سے کتنی رقم ملی اس کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔

منصوبہ بندی

منصوبہ بندی کے بعد موہر سنگھ پارڈی اور ان کے سات دیگر ساتھی تمل ناڈو پہنچ گئے۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ آر بی آئی کی رقم سیلم - چنئی ایکسپریس کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔ یہ گینگ مسلسل کئی دنوں تک ٹرین میں سفر کرکے ان کی ریکی کرتا رہا۔
سی آئی ڈی کو بتایا کہ انہوں نے چناسلم اور وردھاچلم ریلوے سٹیشن کے درمیان ڈکیتی کا منصوبہ بنایا تھا کیونکہ ٹرین ان دونوں سٹیشنوں کے درمیان عام طور پر بغیر رکے 45 منٹ سے زیادہ وقت تک چلتی ہے اور اس دوران رات بھی ہوتی ہے۔
واقعے کے دن موہر اور اس کا گروہ ٹرین کی چھت پر بیٹھ کر سفر کر رہے تھے۔ ٹرین چناسلم تک بجلی کے انجن پر چلتی ہے، پھر وہاں سے وہ ڈیزل انجن پر چلتی ہے۔
Demonetisation Forced Robbers To Burn Rs 2 Crore Out Of The Money They  Robbed In 2016
ایک ڈاکو بوگی کے اندر اترا اور پیسوں سے بھرے لکڑی کے ڈبے کو کاٹا اور نوٹوں کے بنڈل نکالے (فائل فوٹو: انڈیا ٹائمز)

موقع ملتے ہی انہوں نے بوگی کی چھت کو بیٹری سے چلنے والے کٹر سے کاٹ دیا۔ انہوں نے بوگی کی چھت میں بس اتنا سوراخ کیا کہ ایک شخص بہ آسانی اندر جا سکے۔
ایک ڈاکو بوگی کے اندر اترا اور پیسوں سے بھرے لکڑی کے ڈبے کو کاٹا اور نوٹوں کے بنڈل نکالے۔ بنڈل کو لنگیوں میں لپیٹ کر ٹیرس پر بیٹھے دوستوں کو تھمایا۔ آگے ان کے کچھ دوسرے ساتھی ریلوے لائن پر انتظار کر رہے تھے۔ لنگی میں بندھے نوٹوں کے بنڈل ان کی طرف پھینکے گئے۔ اس کے بعد دیگر ڈاکو جو ٹرین کی چھت پر چڑھے تھے، چھلانگ لگا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
جب صبح 11 بجے ٹرین اپنی منزل پر پہنچی تو سیکورٹی گارڈ بوگی کو چیک کرنے آئے، انہیں بوگی کی چھت میں دو مربع فٹ کا سوراخ نظر آیا۔ چھت کا کٹا ہوا حصہ فرش پر پڑا تھا۔ کچھ نوٹ فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ نوٹوں سے بھرے چار ڈبے کھلے پڑے تھے جبکہ ایک بالکل خالی تھا اور دوسرا آدھا خالی تھا۔ ڈاکو اپنے ساتھ پانچ کروڑ سے زیادہ کی رقم لے کر غائب ہو چکے تھے جن میں سے زیادہ تر نوٹ 500 اور 1000 کی کرنسی میں تھے۔

شیئر: