تاہم عدالتی عملے نے فریقین کو آگاہ کیا کہ مختصر فیصلہ آج نہیں سنایا جائے گا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل
سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
فیصل صدیقی نے خیبرپختونخوا کے 2019 کے اسمبلی اعداد و شمار سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔
انہوں نے بتایا کہ باپ پارٹی کی 2019 میں خیبرپختونخوا الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں تھی، تین آزاد امیدوار شامل ہوئے اور الیکشن کمیشن نے ایک مخصوص نشست الاٹ کی۔
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے بددیانتی پر مبنی جواب جمع کرایا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ہی دستاویزات کی نفی کر رہا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا ہے۔
8 فروری کے روز سنی اتحاد کونسل کیا تھی؟ چیف جسٹس کا استفسار
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت ہے مگر سیاسی نہیں ہے؟ اس کے جواب میں وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت بھی ہے اور سیاسی بھی۔
چیف جسٹس نے کہا ’سوال یہ ہے 8 فروری کے روز سنی اتحاد کونسل کیا تھی؟ کل پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل ایک دوسرے کے مخالف بھی ہو سکتے ہیں۔‘
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو پارلیمنٹ میں ہے وہ پارلیمانی پارٹی ہوگی۔
سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے غیر منصفانہ اقدامات کو مدنظر رکھے۔
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی کے آئین میں اقلیتوں کی شمولیت پر پابندی ہے لیکن انہیں اقلیتی نشست بھی الاٹ کی گئی ہے۔
اس پر جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ کامران مرتضیٰ اس پر وضاحت دے چکے ہیں کہ ان کے آئین میں مس پرنٹ ہوا تھا۔
فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ کامران مرتضیٰ کی وضاحت ہوا میں ہے اور انہوں نے جے یو آئی کی ویب سائٹ سے آئین ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہوسکتے ہیں؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس اعتبار سے سنی اتحاد کونسل کو کوئی نشست نہیں ملنی چاہیے، سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو آپ کے دلائل کے مطابق مخصوص نشست کیسے مل سکتی؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں غیر متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق نہیں دی جا سکتیں، جنہیں آزاد کہا جا رہا ہے وہ آزاد نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے کہا کہ وہ اپنے خلاف ہی دلائل دے رہے ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا ’آپ کو قائل نہیں کر سکا یہ الگ بات ہے لیکن ہمارا کیس یہی ہے جو دلائل رے رہا ہوں۔‘
گزشتہ سماعت میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا تھا کہ قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازع ہیں۔
فیصل صدیقی نے مزید بتایا تھا کہ خیبرپختونخوا سے مسلم لیگ ن کو 4، جے یو آئی کو 2، پیپلز پارٹی کو بھی 2 نشستیں اضافی ملی ہیں، ایم کیو ایم کو سندھ سے خواتین کی ایک اضافی نشست ملی ہے، پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی 2، مسلم لیگ ن کو 9 نشستیں ملی ہیں۔
آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل
آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف سے منسلک امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ہمیں آزاد امیدوار مانا جائےگا۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں جس میں تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا ہو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے جمع کروائے گئے ریکارڈ کو گوہرعلی خان نے نہیں مانا۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف اور کنول شوزب کی نمائندگی کر رہے ہیں اور کنول شوزب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ چھپا رہا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت میں جمع کرائے گئے دستاویزات قابل اعتبار نہیں ہیں۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کسی زمانے میں حکومت اور آئینی ادارے نیک نیتی سے فریق بنتے تھے، اب تو الیکشن کمیشن مقدمہ ہر صورت جیتنے آیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا ’آپ کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے سنی اتحاد میں جانا درست ہے؟‘
سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلے کے ذریعے آزاد قرار دیا، آزاد قرار پانے پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں چاہیے؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بنتی ہیں،
پارٹی میں شمولیت کے لیے جنرل نشست ہونا لازمی قرار دینا غیرآئینی ہے۔
تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر دیا۔
خیال رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کا مخصوص نشستوں کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔