Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سورت کے نوجوان سنجیو کمار جنہوں نے خود کو دہرایا نہ کسی کردار میں قید کیا

سنجیو کمار کا اصلی نام ہری ہر جیٹھا لال تھا جو انہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے تبدیل کیا۔ فوٹو: انسٹا گرام سنجیو کمار
یہ انڈین ریاست گجرات کے شہر سورت کے ایک نوجوان ہری ہر جیٹھا لال کی کہانی ہے جن کے لیے زندگی کبھی آسان نہیں تھی۔ وہ اداکاری کرنا چاہتے تھے اور یہ ان کا جنون بھی تھا جس کے لیے ان کی والدہ نے زیورات گروی رکھ کر ان کا داخلہ بالی ووڈ کے معروف فلم ساز ششیدھر مکھرجی کے ایکٹنگ سکول میں کروا دیا۔
بات آگے بڑھانے سے قبل کچھ ذکر ششیدھر مکھرجی کا ہو جائے، وہ بنگال کے ایک ہندو برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بالی ووڈ کے معروف مکھرجی خاندان کے سربراہ ہیں۔ اداکارہ کاجل اور رانی مکھرجی اسی مکھرجی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ 
ششیدھر مکھرجی نے سال 1943 میں اشوک کمار اور رائے بہادر چنی لال کے ساتھ مل کر ممبئی میں فلمستان سٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی۔ رائے چنی لال کا تعلق چکوال سے تھا اور وہ کچھ عرصہ لاہور میں بھی مقیم رہے۔ معروف میوزک ڈائریکٹر مدن موہن ان کے صاحبزادے تھے۔
ایک اور دلچسپ کہانی یہ ہے کہ یوسف خان کو دلیپ کمار کا نام بمبئے ٹاکیز کی دیویکا رانی نے دیا تھا اور ششیدھر مکھرجی اور اشوک کمار بھی ان دنوں بمبئے ٹاکیز سے ہی منسلک تھے۔ وہ بہرحال بالی ووڈ کے پہلے ’کمار‘ تھے۔ 
بات سورت کے نوجوان ہری ہر جیٹھا لال کی ہو رہی تھی۔ ہر والدہ کی طرح ان کی والدہ بھی ان کو ڈاکٹر یا وکیل بنانا چاہتی تھیں مگر اپنے بیٹے کا جنون دیکھ کر انہوں نے ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہری ہر جیٹھا لال اداکاری کا خواب پورا کرنے کے لیے مہان فلم نگری ممبئی آ گئے۔ صبح ایک فلم سٹوڈیو ہوتے تو شام کو دوسرے۔ ان کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں اور وہ سال 1960 میں بالآخر سنیل دت اور آشا پاریکھ کی فلم ’ہم ہندوستانی‘ میں کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم میں ان کا کردار محض دو سیکنڈ کا تھا۔ وہ شکست تسلیم کر سکتے تھے، سورت واپس جا سکتے تھے مگر وہ کام تلاش کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔
ہری ہر جیٹھا لال کو فلموں میں اپنا نام بنانے کے لیے ایک موزوں نام کی تلاش تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے تھیٹر کے زمانے کے دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان کی والدہ کا نام شانتا بین جری والا تھا جس کے باعث وہ ایسا فلمی نام چاہتے تھے جو ایس سے شروع ہوتا ہو۔

سنجیو کمار کی والدہ انہیں ڈاکٹر یا وکیل بنانا چاہتی تھیں۔ فوٹو: انسٹا گرام سنجیو کمار

دلیپ کمار جی کو جب دیویکا رانی نے نام بدلنے کے لیے کہا تو ان کو یہ سن کر دھچکا لگا تھا مگر یہ نوجوان اپنے خوابوں کو پانے کے لیے اپنا نام، اپنی پہلی شناخت تیاگ دینے کے لیے بھی تیار تھا۔ 
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دلیپ کمار اور اشوک کمار بالی ووڈ کے کامیاب ترین اداکار تھے۔ چنانچہ اس نوجوان نے بھی اپنے نام کے ساتھ کمار کا لاحقہ لگانے کا فیصلہ کیا جب کہ اپنے لیے وہ ’سنجے‘ کا نام پہلے ہی سوچ چکے تھے۔
سال 1964 میں ان کی دوسری بالی ووڈ فلم ’آؤ پیار کریں‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے اپنی نئی شناخت سنجے کمار کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے اس دوران کمال امروہی کی فلم ’شنکر حسین‘ بھی سائن کی۔ یہ فلم تو کبھی نہ بن سکی مگر کمال امروہی نے ان کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ نام کچھ خاص متاثرکن نہیں ہے اور ان کے لیے ایک نیا نام گوتم راجونش تجویز کیا۔
ناموں کی یہ ادلا بدلی کسی اور فنکار کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی تھی مگر اس نوجوان کو تو بس فلموں میں کام کرنا تھا، اس لیے انہوں نے ایک موزوں فلمی نام کی جستجو جاری رکھی۔ اس دوران ہوا کچھ یوں کہ اداکار سنجے خان (اداکار و ہدایت کار فیروز خان کے بھائی) کی فلم ’دوستی‘ سپر ہٹ ہو گئی تو ہری ہر جٹھیا لال نے اپنا نام سنجے کمار سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک نئے نام کے ساتھ سال 1965 میں فلم 'نشان' سے اپنے فلمی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے اپنا نیا نام سنجیو کمار رکھا تھا اور یہ ان کی اس نام کے ساتھ پہلی فلم تھی۔ 
یہ کہانی بالی ووڈ کے عظیم اداکار سنجیو کمار کی ہے جو  1938 میں آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔ 
یہ وہ سنجیو کمار ہی ہیں جنہوں نے شطرنج کے کھلاڑی، ’آندھی، انگور اور موسم سمیت کئی ایسی یادگار فلمیں دیں جنہوں نے انہیں بالی ووڈ کے ایسے اداکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا جو اس وقت بھی کامیابی سے اپنی منفرد اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کر رہے تھے جب سپرسٹار راجیش کھنہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
راجیش کھنہ کی ڈبیو فلم ’آخری خط‘ سال 1966 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یوں سنجیو کمار اور راجیش کھنہ کا فلمی سفر تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا۔ ان کی کامیابی کی داستان بھی ایک ساتھ ہی آگے بڑھی۔ راجیش کھنہ کے سٹارڈم کے باعث بہت سے اداکار جب اپنے کیریئر کو بچانے کی جستجو کر رہے تھے تو یہ سنجیو کمار ہی تھے جنہوں نے ناصرف اپنی الگ پہچان بنائی بلکہ وہ اس دور کے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں شمار کیے جانے لگے۔
ہردیپ کمار برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’سنہ 1968 کی فلم ’سنگھرش‘ میں سنجیو کمار نے دلیپ کمار کے ساتھ اداکاری کر کے اپنا سکہ جمایا، جو ان کی موت تک یعنی اگلے 17 سال جاری رہا۔ اس دوران سنجیو کمار نے نہ صرف باکس آفس پر کامیاب فلمیں دیں بلکہ باکس آفس پر ایسی فلموں میں بھی کام کیا، جو ان کے دور سے بہت آگے کی تھیں۔‘

سنجیو کمار نے شطرنج کے کھلاڑی، آندھی، انگور اور موسم سمیت کئی یادگار فلمیں دیں۔ فوٹو: انسٹا گرام سنجیو کمار

سنجیو کمار نے بہت کم عمری میں ایسے کرداروں میں کام کیا جو اداکار عموماً ان کی عمر میں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہ اس وقت 22 برس کے خوبرو نوجوان تھے جب انہوں نے آرتھر ملر کے کھیل ’All My Sons‘ میں ایک بوڑھے شخص کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس کے بعد لیجنڈ اے کے ہنگل کے ساتھ اسی برس ایک اور کھیل میں 60 برس کے شخص اور چھ بچوں کے باپ کا کردار ادا کیا۔
اے کے ہنگل ایک فریڈم فائٹر ہونے کے علاوہ اداکار بھی تھے۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، کچھ عرصہ پشاور میں کام کیا اور پھر کراچی چلے گئے جہاں وہ کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے دو برس جیل میں رہے۔ رہائی ملی تو انڈیا چلے گئے اور ممبئی میں مستقل رہائش اختیار کی۔ انہوں نے کیفی اعظمی اور بلراج ساہنی کے ساتھ مل کر انٹرنیشنل پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے لیے بہت سے ڈرامے بنائے۔ یہ وہ تھیٹر گروپ ہی ہے جس سے سنجیو کمار بھی وابستہ رہے تھے۔
 بالی ووڈ میں شاذ ہی ایسے اداکار گزرے ہیں جن کے کرداروں میں اس قدر تنوع رہا ہو۔ کچھ اداکار تو اپنی ایک سی اداکاری کی بنا پر مقبول ہو گئے جیسا کہ دلیپ کمار کنگ آف ٹریجیڈی کہلائے جب کہ شاہ رُخ خان کنگ آف رومانس۔ سنجیو کمار نے کبھی خود کو ایک ہی نوعیت کے کرداروں تک محدود نہیں کیا۔ اس کی ایک مثال ان کی یادگار فلم 'نیا دن نئی رات' ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار اے بھیم سنگھ نے اس فلم کے لیے دلیپ کمار سے رابطہ کیا جنہوں نے فلم میں کام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اس فلم کے لیے سنجیو کمار کا نام تجویز کیا۔ اس وقت مگر اداکار کو جھٹکا لگا جب انہوں نے فلم کا سکرپٹ پڑھا، وہ گھبرا گئے کیوں کہ اس فلم میں انہیں دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں بلکہ ایک ساتھ نو کردار ادا کرنے تھے جو سب ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
سنجیو کمار ایک بار تو ضرور گربڑا گئے تھے اور اس سوچ میں پڑ گئے تھے کہ وہ ایک ہی فلم میں یہ سارے کردار کیسے ادا کریں گے؟ انہوں نے ہدایت کار سے معذرت کرنے کا سوچا مگر منفرد کام کرنے کے جنون کے باعث یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں سجیو کمار کہیں سوامی، کہیں ڈاکو، کہیں شکاری، کہیں مے نوش، کہیں سٹیج فنکار تو کہیں کوڑھ کے مریض اور کہیں ادھیڑ عمر شخص کے کردار میں نظر آئے۔ ہر کردار ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا مگر سنجیو کمار نے ہر کردار کو بڑے پردے پر کچھ یوں پیش کیا کہ لوگ ان کی اداکاری پر اَش اَش کر اٹھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو اس اپنی اس یادگار پرفارمنس پر بھی فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا گیا مگر وہ اپنی اداکاری سے فلم بینوں کے دلوں میں اُتر چکے تھے۔
سنجیو کمار بالی ووڈ کے غالباً وہ واحد اداکار ہیں جنہوں نے غالباً سب سے زیادہ متنوع کردار ادا کیے اور کبھی خود کو دہرایا اور نہ ہی کسی کردار میں قید کیا۔ 

سنجیو کمار اور راجیش کھنہ کا فلمی کیریئر تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا۔ فوٹو: انسٹا گرام سنجیو کمار

وہ فلم 'انامیکا' میں اداکارہ جیابہادری کے عاشق کے کردار میں نظر آئے، 'پریچے' میں اداکارہ کے والد کا کردار ادا کیا اور شعلے میں ان کے سسر کے کردار میں نظر آئے اور ہر کردار میں یوں ڈوب گئے کہ ان کی اداکاری پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔
سال 1977 میں دنیائے سنیما کے مہان فلم میکر ستیہ جیت رے کی شاہکار فلم 'شطرنج کے کھلاڑی' میں مرزا سجاد علی کے مرکزی کردار میں نظر آئے۔ انہوں نے اس فلم میں کام کرنے کے لیے بہت کم پیسے لیے مگر جنون تھا تو کر گزرے اور اس کردار کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
بی اور سی گریڈ فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے سنجیو کمار نے سال 1978 میں سپرہٹ فلم 'پتی، پتنی اور وہ' میں کام کیا جس کے ہدایت کار بی آر چوپڑہ تھے جو یش چوپڑہ کے بڑے بھائی تھے اور لاہور میں چیمبرلین روڈ اور کچھ عرصہ وکٹوریہ پارک کے علاقے میں رہے۔ 
بات فلم ’پتی، پتنی اور وہ‘ کی ہو رہی تھی تو سال 2019 میں اسی نام سے اس فلم کا ری میک بنایا گیا اور کارتک آریان کی یہ فلم بھی باکس آفس پر اچھا بزنس کرنے میں کامیاب رہی جب کہ سال 1982 میں ریلیز ہونے والی ان کی مزاحیہ فلم 'انگور' نے سنجیو کمار کے کریڈٹ میں ایک اور متنوع کردار کا اضافہ کر دیا۔ 
سنجیو کمار نے شہرت اور دولت تو حاصل کی ہی مگر اپنے افیئرز کی وجہ سے بھی خبروں میں رہے۔ نوتن اور ہیما مالنی کے ساتھ تو ان کا افیئر زبان زد عام رہا۔ نوتن اداکارہ تنوجہ کی بہن اور یوں کاجول کی خالہ تھیں۔ وہ اس وقت شادی شدہ تھیں جب سنجیو کمار کے ساتھ ان کے افیئر کی خبروں نے ان کی نجی زندگی کو مشکلات کا شکار کر دیا۔ اس وقت سنجیو کمار فلمی دنیا میں نئے تھے اور نوتن اداکاری میں اپنی منفرد پہچان بنا چکی تھیں۔ اس افیئر کی خبروں نے جب نوتن کی ازدواجی زندگی کو مشکلات کا شکار کیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئیں اور سنجیو کمار کو طمانچہ رسید کر دیا۔ 
سنجیو کمار اور ہیما مالنی کی ناکام محبت کی وجہ سنجیو کمار خود تھے جو چاہتے تھے کہ ہیما مالنی شادی کے بعد ان کی والدہ کا خیال رکھیں۔ اس معاملے پر دونوں کا رشتہ آگے نہ بڑھ سکا اور بریک اَپ ہو گیا۔ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رُکا۔ اداکار کے اس کے بعد بھی مختلف اداکارائوں کے ساتھ افیئرز چرچا میں رہے جن میں اداکارہ اور گلوکارہ سولکشنا پنڈت بھی شامل تھیں لیکن اداکار نے شادی نہیں کی اور انہوں نے اس وقت اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے خود کو شراب نوشی میں غرق کر لیا۔

سنجیو کمار بالی ووڈ کے غالباً وہ واحد اداکار ہیں جنہوں نے غالباً سب سے زیادہ متنوع کردار ادا کیے۔ فوٹو: انسٹا گرام سنجیو کمار

بالی ووڈ کے نامور ہدایت کار، کہانی کار اور نغمہ نگار گلزار سنجیو کمار کی اداکاری کے مداح تھے۔ اداکار کی سوانح عمری 'سنجیو کمار، ایک اداکار جسے ہم سب پیار کرتے تھے'، ان کی موت کے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے بعد شائع ہوئی، میں اداکار کے دوستوں کے ان کے بارے میں لکھے گئے مضامین یکجا کیے گئے ہیں جن میں گلزار کا ان پر لکھا مضمون بھی شامل ہے۔ 
اداکار انیل کپور گلزار اور سنجیو کمار کی تخلیقی شراکت داری کا ہالی ووڈ لیجنڈز مارٹن سکورسی اور رابرٹ ڈی نیرو کی تخلیقی شراکت داری سے موازنہ کرتے ہیں۔ 
اور  اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ سنجیور کمار نے گلزار کے ساتھ یادگار فلموں موسم، آندھی، انگور، کوشش اور پریچے جیسی فلموں میں کام کیا۔ اس زمانے میں ہی مارٹن سکورسی اور رابرٹ دی نیرو نے ہالی ووڈ کلاسکز ٹیکسی ڈرائیور، مان سٹریٹس، نیویارک، نیویارک اینڈ ریگنگ بل جیسی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔
گلزار کہتے ہیں، ’وہ میرے لیے ایک مکمل اداکار تھا۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ میرے لیے یہ دو لوگ نہایت اہم ہیں جن میں ایک سنجیو کمار اور دوسرے آر ڈی برمن ہیں۔ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ میں ہری بھائی (جس نام سے انہیں مخاطب کیا کرتا تھا) کو 50 کی دہائی سے جانتا تھا۔ ہم دونوں انڈین نیشنل تھیٹر سے منسلک تھے جہاں میں کھیل لکھا کرتا اور وہ سٹیج ایکٹر تھا۔‘
اداکار اور مشہور ٹیلی ویژن ہوسٹ تبسم نے ایک بار سنجیو کمار سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں کر بوڑھے لوگوں کے کردار ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں جب وہ ابھی نوجوان ہیں تو اس پر اداکار نے پریشان کن جواب دیا تھا، انہوں نے کہا تھا، 'میں بوڑھا نہیں ہونے جا رہا کیوں کہ میں 50 سال کی عمر سے زیادہ نہیں جیوں گا جیسا کہ میرے خاندان میں کوئی بھی مرد 50 سال سے زیادہ نہیں جیا۔  چناں چہ میں سکرین پر بڑھاپے میں ڈھلنے کا تجربہ کر رہا ہوں۔'
اس سے قطع نظر کہ اداکار نے یہ بات سنجیدگی میں کہی تھی یا مذاق میں مگر ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی اور وہ 6 نومبر 1985 کو ہونے والے ہارٹ اٹیک سے بچ نہ سکے۔ ان کو پہلی بار 37 برس کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ان کے طرز زندگی میں مگر کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کے باعث جلد ہی دوسری بار ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہ علاج کے لیے امریکہ چلے گئے اور اوپن ہارٹ سرجری کروائی جس کے بعد اداکار کے صحت مند ہونے کی امید بندھ چلی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انہوں نے زندگی کی ایک طویل اننگ تو نہیں کھیلی مگر اپنے مختصر کیریئر میں بھی ان کا تخلیقی سفر ایسا شاندار رہا کہ وہ آج بھی شائقین فلم کے دلوں میں بستے ہیں۔

شیئر: