Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکران میں احتجاج، ’50 سینٹی گریڈ گرمی میں بجلی کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے‘

نیشنل پارٹی، بی این پی، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جے یو آئی اور بی ایس او نے احتجاج میں شرکت کی (فوٹو: اسد بلوچ)
’45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں بجلی ضرورت نہیں بلکہ مجبوری  بن جاتی ہے لیکن گذشتہ ایک ہفتے سے ہم دوزخ جیسی گرمی میں بغیر پنکھے اور کولر کے زندگی گزار رہے ہیں، بچے، خواتین اور بوڑھے بیمار ہو رہے ہیں۔‘
یہ الفاظ ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ کے رہائشی نجیب اللہ کے ہیں۔ نجیب اللہ سمیت گوادر، کیچ اور پنجگورکے اضلاع پر مشتمل بلوچستان کے مکران ڈویژن کی 18 لاکھ سے زائد آبادی کو گذشتہ ایک ہفتے سے بجلی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔
اس بحران کے خلاف گوادر، جیونی، پسنی اور تربت میں گذشتہ کئی روز سے مقامی شہریوں، تاجروں، سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج بھی جاری ہے۔
نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ کوئی آکر دیکھے کہ 50 سینٹی گریڈ گرمی میں بغیر بجلی کے زندہ رہنا کتنا مشکل ہے، ہم جہنم جیسی صورت حال میں رہ رہے ہیں۔‘
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کا یہ بحران ایران کی جانب سے بجلی کی فراہمی میں تعطل اور کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ہمسایہ ملک سے سرحدی اضلاع کو بجلی کی فراہمی میں 90 فیصد تک کمی آئی ہے۔
تاہم مظاہرین حکام کے اس دعوے پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بہانے بنا کر مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے۔کیچ کے ضلعی ہیڈکوارٹرز تربت میں مرکزی بازار کے فدا چوک پر آل پارٹیز کی جانب سے گذشتہ تین دنوں سے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا جا رہا ہے۔
بدھ کو مظاہرین نے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ سے شدید گرمی میں احتجاجی ریلی نکالی اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔
مظاہرین کی اپیل پر دکان داروں نے بھی اپنی دکانیں بند کرکے احتجاج میں شرکت کی۔ احتجاج میں نیشنل پارٹی، بی این پی، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جے یو آئی، بی ایس او  کے رہنما اور کارکن شریک ہوئے۔
گوادر کے علاقے جیونی میں پانوان کے مقام پر مظاہرین نے جیونی کو گوادر اور کراچی سے ملانے والی کوسٹل ہائی وے کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا جس سے بڑی تعداد میں گاڑیاں پھنس گئیں۔

بدھ کو مظاہرین نے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ سے شدید گرمی میں احتجاجی ریلی نکالی (فوٹو: اسد بلوچ)

گوادر کے علاقے پشکان میں بھی پانی اور بجلی کی قلت کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا جس میں خواتین نے بھی شرکت کی۔
اس سے پہلے پسنی میں زیرو پوائنٹ پر مظاہرین نے کوسٹل ہائی وے کو بند رکھا۔ رواں ہفتے گوادر میں حق دو تحریک کے سربراہ اور گوادر سے بلوچستان اسمبلی کے منتخب رکن مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی سربراہی میں شہریوں نے بجلی کے بحران کے خلاف گرڈ سٹیشن کے باہر دھرنا دیا۔
تربت میں احتجاج کی قیادت کرنے والے آل پارٹیز کے ڈپٹی کنوینر ظریف بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ تربت سمیت مکران کے بیشتر علاقے ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں یہاں  درجہ حرارت 45 سے 51 سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ 
’اتنی شدید گرمی میں 20، 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ دور دراز کے کئی علاقوں میں تو کئی دنوں سے بجلی بالکل ہی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس شدید موسم میں بجلی کے بغیر گزارہ انتہائی مشکل ہے، لوگ اذیت کا شکار ہیں خاص کر دوپہر میں تو سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں لوگوں کو پینے کا پانی بھی نہیں مل رہا۔
نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا )کے مطابق گوادر، کیچ اور پنجگور کے اضلاع پر مشتمل بلوچستان کے مکران ڈویژن کو 2003 سے ایران سے بجلی مل رہی ہے۔

حکام کے مطابق ایران کی جانب سے اچانک بجلی کی فراہمی بند کرنے سے بحران پیدا ہوا‘ (فوٹو: اسد بلوچ)

’ایران کے علاقے پھلان سے گوادر تک 80 کلومیٹر طویل 132 کے وی کی نئی ٹرانسمیشن لائن بچھا کر ایران سے بجلی کی درآمد کو 200 میگا واٹ تک بڑھا دیا گیا ہے۔‘
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے ترجمان نے تصدیق کی کہ یہ بحران ایران کی جانب سے بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔
تاہم کیسکو کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عام دنوں میں ایران سے طے شدہ 200 میگا واٹ کا زیادہ حصہ مل رہا ہوتا ہے، تاہم ایک ہفتے پہلے ایران نے اچانک بجلی کی فراہمی بند کردی۔ 
’اب گذشتہ چار دنوں سے دن میں کبھی 15 اور کبھی 20 میگا واٹ تک بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ رات کو 40 سے 45 میگا واٹ تک سپلائی بڑھا دی جاتی ہے۔‘
کیسکو افسر نے تصدیق کی کہ بجلی کے اس بحران کی وجہ سے کئی علاقوں میں 16 سے 20گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔
تاہم ظریف بلوچ کہتے ہیں کہ ایران سے بجلی کی فراہمی میں تعطل کو لوگ بہانہ بازی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے۔ ان دنوں طلب بہت بڑھ جاتی ہے تو یہ مصنوعی بحران پیدا کر دیتے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ ایک ہفتے سے ہم دوزخ جیسی گرمی میں بغیر پنکھے اور کولر کے زندگی گزار رہے ہیں‘ (فوٹو: اسد بلوچ)

ان کا کہنا ہے کہ اگر ایران سے بجلی کی فراہمی میں تعطل ہے تو وی آئی پی اور انڈیپینڈنٹ فیڈرز کو رات بھر کیسے بجلی مل رہی ہوتی ہے؟
کیسکو افسر کا کہنا ہے کہ ایران میں ہر سال ان مہینوں میں بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح ایران کے سسٹم میں لوڈ اور فریکوئنسی کے بھی مسائل آرہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کو بجلی کی فراہمی بند کر دیتے ہیں۔
آل پارٹیز کیچ کے ڈپٹی کنوینر ظریف بلوچ کہتے ہیں کہ ایران سے بجلی کی فراہمی میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو نیشنل گرڈ سے بجلی دینی چاہیے،گر م علاقوں میں بجلی لوگوں کی زندگی و موت کا مسئلہ بن رہا ہے۔
مکران کو 70 برسوں بعد پہلی بار گذشتہ سال مئی میں پاکستان میں بجلی کی فراہمی کے مرکزی نظام ’نیشنل گرڈ ‘سے منسلک کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے خضدار کے علاقے نال سے بسیمہ واشک، ناگ اور پھر پنجگور تک 286 کلومیٹر طویل 132 کے وی لائن بچھائی گئی نیشنل گرڈ سے مکران کو 70 سے 80 میگا واٹ تک بجلی دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم کیسکو کے افسر نے بتایا کہ نیشنل گرڈ سے مکران اب تک مکمل طور پر منسلک نہیں ہوا اور اس میں کئی خامیاں موجود ہیں اس لیے نیشنل گرڈ سے کوئی خاطر خواہ بجلی مکران کو نہیں مل رہی۔ 

شیئر: