سولر پینلز کے لیے حکومت یا بینک سے قرض کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
سولر پینلز کے لیے حکومت یا بینک سے قرض کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
اتوار 14 جولائی 2024 7:40
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت سکیموں کے بجائے قابل تجدید توانائی کے فروغ کے لیے اقدامات کا اعلان کرے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد صوبائی حکومتوں نے بجلی صارفین کو آسان اقساط پر سولر سسٹم کی فراہمی کے لیے بینکوں سے قرض دینے کے منصوبے شروع کیے ہیں جن کا مقصد بجلی صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچانا بتایا گیا ہے۔
اس ضمن میں پنجاب حکومت نے ’روشن گھرانہ‘ پروگرام کے تحت ماہانہ 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے 45 لاکھ گھریلو صارفین کو آسان اقساط پر بلاسود سولر سسٹم دینے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے بھی گھریلو صارفین کو سولر سسٹم مہیا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان نور احمد کا کہنا ہے کہ اس وقت سولر پینل کے حوالے سے بینکوں میں کوئی سرکاری سکیم رائج نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’نجی بینکوں کی جانب سے صارفین کی اہلیت دیکھ کر اُنہیں سولر پینلز خریدنے کے لیے سُود پر قرض فراہم کیا جاتا ہے۔‘ سولر پینل پر سٹیٹ بینک کی سکیم 30 جون کو ختم ہو چکی ہے: ترجمان سٹیٹ بینک
سولر پینل لگوانے کے لیے بینکوں سے قرض کے حصول کے معاملے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان نور احمد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت سرکاری سطح پر سولر پینل کی خریداری کے لیے بینکوں سے قرض حاصل کرنے کی کوئی سکیم موجود نہیں ہے۔
’سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری سکیم کی میعاد 30 جون 2024 کو ختم ہو چکی ہے جس کے تحت صارفین کو سولر پینل خریدنے کے لیے آسان اقساط پر قرض کی فراہمی ممکن ہو رہی تھی۔‘
پاکستان کے مرکزی بینک کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ سکیم گھریلو صارفین کے علاوہ کمرشل اور صنعتی صارفین کے لیے بھی موجود تھی۔‘
’اس سکیم کے تحت بجلی استعمال کرنے والے متعدد صارفین نے قرض حاصل کیا، تاہم اب وفاقی حکومت یا سٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی سرکاری سکیم موجود نہیں ہے۔‘ بینک اپنی پالیسی کے تحت سولر پینل کے لیے قرضے فراہم کر رہے ہیں: سٹیٹ بینک
ترجمان سٹیٹ بینک نور احمد کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے مختلف نجی بینک سولر پینلز کی خریداری کے لیے قرض پروگرام دے رہے ہیں۔
’ایسے پروگراموں میں سود بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو ہدایات کی ہیں کہ وہ قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کے لیے صارفین کو سہولت فراہم کریں۔‘
سولر پینلز کے لیے بینکوں سے قرض حاصل کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟
سٹیٹ بینک کے ترجمان نے ملک کے مختلف نجی اور سرکاری بینکوں سے سولر پینلز کی خریداری کے لیے قرض حاصل کرنے کے طریقہ کار کی تفصیل بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ بینک اپنے مقررکردہ ضابطے کے تحت ایسے پروگراموں میں قرض کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ سب سے پہلے بینکوں کی جانب سے قرض کی درخواست دینے والے صارف کا پروفائل دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ صارف بینکوں کے ساتھ لین دین کے معاملے میں قابل اعتماد ہے یا نہیں؟
صارف کی سولر پینل کے لیے قرض حاصل کرنے کی اہلیت کے لیے اس کا ماہانہ بجلی کا استعمال بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ کم بجلی استعمال کرنے والے (ماہانہ 200 یونٹ) صارفین کو ہی ایسی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
اگر کوئی صنعتی یا کمرشل صارف قرض کے لیے درخواست دیتا ہے تو اس کے کاروبار کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے کہ کیا وہ قرض کے لیے اہل ہے بھی یا نہیں۔ گھریلو اور کمرشل صارف دونوں کی مالی پوزیشن بھی دیکھی جاتی ہے کہ آیا وہ قرض واپس لوٹا سکیں گے یا نہیں۔
صوبہ پنجاب کی حکومت بجلی کے ماہانہ 50 سے 500 یونٹ استعمال کرنے والے گھرانوں کو سولر سسٹم فراہم کرے گی۔
صوبائی حکومت سولر سسٹم کی لاگت کا 90 فیصد حصہ ادا کرے گی جبکہ 10 فیصد صارف کو ادا کرنا ہو گا۔
’حکومت پنجاب ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت جبکہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارٖفین کو بلاسود قرض فراہم کرے گی۔‘
’حکومت پنجاب ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت جبکہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارٖفین کو بلاسود قرض فراہم کرے گی۔
اسی طرح 500 یونٹس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے حکومت 75 فیصد بلاسود قرض کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالے گی۔`
سولر پینلز پانچ سال کی آسان اقساط پر صارفین کو مہیا کیے جائیں گے اور سکیم کے پہلے مرحلے میں ’غریب ترین گھرانوں‘ کو ترجیح دی جائے گی۔
حکومت پنجاب کے مطابق سولر سٹم لگوانے کے لیے گھریلو صارفین کو 8800 پر شناختی کارڈ نمبر اور بجلی بل پر درج ریفرنس نمبر بھیجنا ہو گا۔
اس کے بعد صارفین کی اہلیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعے گھریلو صارفین کو سولر سٹم دیا جائے گا جبکہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے صارف کا فائلر ہونا بھی ضروری ہے۔
اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق بینک آف پنجاب اور نیشنل بینک کے ذریعے صارفین سولر کی 25 فیصد قیمت ادا کریں گے۔
اس رقم پر صارفین سے سود وصول نہیں کیا جائے گا۔ صارفین کو سولر کی اصل قیمت پانچ سال کے دوران قسطوں میں ادا کرنا ہو گی۔ صارف کو سولر کی قیمت بجلی کے بل کی صورت میں بذریعہ اقساط ادا کرنا ہو گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا منصوبہ کیا ہے؟
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بھی ایک ’سولر سکیم‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے جاری بیان کے مطابق ابتدائی طور پر ماہانہ 200 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے ایک لاکھ گھروں کو سولر سسٹم مہیا کیے جائیں گے۔ ’منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے: خیبر پختونخوا حکومت
خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ منصوبے کو بینک کے ذریعے یا براہ راست شروع کیے جانے کے حوالے سے مختلف آپشنز زیرِغور ہیں جبکہ منصوبے کے لیے اچھے وینڈرز کو بھی تلاش کر رہے ہیں۔‘
سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ عمر زیدی کے خیال میں سولر پینلز کے موجودہ سرکاری منصوبے یا بینکوں کی سکیمیں صرف مہنگی بجلی سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے منصوبوں کے مکمل ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں جو صرف بیانات کی حد تک ہوں۔
’حکومت کے لیے ان سکیموں کے لیے بجٹ مختص کرنا بھی آسان کام نہیں ہو گا۔ اس کے بعد سولر پینلز حاصل کرنے کی اہلیت کے لیے مشکل شرائط رکھی گئی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں شہری اہل ہی قرار نہیں پائیں گے۔‘
عمر زیدی کے مطابق حکومت کو بجائے ایسے اعلانات کے ملک میں قابل تجدید توانائی کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیز بنانے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے اندر ہی سولر پینلز بن سکیں اور اُن کے استعمال کی طرف لوگوں کا رجحان بھی بڑھ سکے۔
’ایسی پالیسیوں کے بغیر ملک میں سولر پینلز کے استعمال میں اضافہ یا قابل تجدید توانائی کا فروغ ممکن نہیں ہے۔‘