تین سال سے لاپتہ پریا کماری: ’ایسا معلوم ہوتا ہے پولیس بہت کچھ جانتی ہے‘
تین سال سے لاپتہ پریا کماری: ’ایسا معلوم ہوتا ہے پولیس بہت کچھ جانتی ہے‘
پیر 22 جولائی 2024 16:00
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ان دنوں کراچی میں پریا کماری کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی تحریک جاری ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سکھر سے لاپتہ ہونے والی پریا کماری کا تین سال بعد بھی پتہ نہیں لگایا جا سکا۔ اور ان کی بازیابی کے لیے کراچی کے علاقے تین تلوار پر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
مظاہرین نے انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ پولیس سمیت دیگر ادارے بچی کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔
پریا کماری کون ہے؟
سندھ میں بسنے والے ہندو سرکاری اداروں سے لے کر بڑے کاروبار تک اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ان دنوں سندھ کے مختلف اضلاع میں ایک بچی کی بازیابی کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ بچی سندھ کے علاقے سکھر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سنگرار سے تعلق رکھتی ہے جو سنہ 2021 میں لاپتہ ہوئی تھی۔
سکھر پولیس کے مطابق پریا کماری محرم الحرام کے ایام میں اپنے والد کے ساتھ سبیل پر موجود تھی، والد کسی کام سے گھر تک گئے اور جب واپس آئے تو وہ سبیل پر موجود نہیں تھی۔ بچی کے والد نے اپنی بیٹی کی تلاش شروع کی، محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اس دن علاقے میں موبائل نیٹ ورک کی بندش تھی۔ بچی کو بہت تلاش کی لیکن کہیں کوئی پتہ نہیں ملا تو والدین نے پولیس سے رابطہ کیا۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عبدالقیوم بٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پریا کماری کا لاپتہ ہونے کا واقعہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ تقریباً تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس بچی کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچی کی بازیابی کے لیے ہر سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا جا رہا ہے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں سول سوسائٹی سے لے کر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے بچی کی بازیابی کے لیے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ان دنوں کراچی میں پریا کماری کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی تحریک جاری ہے۔ سول سوسائٹی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
بچی کے والدین کس کے دباؤ میں ہیں؟
عبدالقیوم بٹ کے مطابق ’بچی کے والد راج کمار عرف راجو اور ان کی اہلیہ پر خاموش رہنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا جا رہا ہے، علاقے کے سردار، برادری کے بڑوں اور دیگر بااثر افراد کی یقین دہانیوں اور روک ٹوک کی وجہ سے وہ میڈیا کے سامنے کھل کر بات کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس معاملے میں اپنا موثر کردار ادا کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے نوٹس کے باوجود اب تک کیس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
کراچی تین تلوار پر مظاہرے میں شریک سرفراز منٹھار نے کراچی پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’پولیس بچی کی بازیابی کے لیے کام کرنے کے بجائے مظاہرین پر لاٹھیاں برسا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کراچی میں پُرامن مظاہرے پر پولیس نے لاٹھی چارج کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ مظلوم کے لیے آواز اٹھانے والوں پر ڈنڈے برسانے کی پالیسی رکھتی ہے۔‘
’ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بچی کو بازیاب کرایا جائے یا پھر بچی کے بارے میں سچائی پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں۔ ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس بہت کچھ جانتی ہے لیکن اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
سرفراز منٹھار کا کہنا تھا کہ پریا کماری سندھ کی بیٹی ہے، وادی مہران کی بیٹی ہماری عزت ہے، ہم مذہب یا قومیت پر یقین نہیں رکھتے، انسانیت کی بنیاد پر اس مقصد سے جڑے ہیں، اور بچی کی بازیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پریا کماری کی بازیابی کے لیے اندرون ملک کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی آواز بلند کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے اس بچی کی بازیابی کا معاملہ اقوام متحدہ سمیت مختلف فورمز پر اٹھایا جا رہا ہے۔
کیا پریا کماری زندہ ہے؟
سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریا کماری کا کیس ایک گمنام کیس تھا مگر سندھ پولیس نے اس میں امید پیدا کی اور بتایا کہ ’پریا کماری زندہ ہے، جس کے شواہد ملے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بہت جلد انویسٹی گیشن ٹیم کو کامیابی ملے گی، شواہد اور تفصیلات والدین اور کمیٹی کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پریا کماری ہماری بھی بیٹی ہے، پریا کی بازیابی کے لیے سندھ پولیس کی بہترین ٹیم بنائی گئی ہے، تحقیقاتی ٹیم نے تین سال بعد پریا کے زندہ ہونے کے شواہد اکٹھے کیے، اور ٹیم کیس کے حل کے قریب پہنچ چکی ہے۔
ضیا الحسن لنجار نے پولیس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سندھ پولیس پر یقین ہے وہ پریا کماری کو بازیاب کروا لیں گے۔ پریا کماری کو بازیاب کرنے والی پولیس ٹیم کو ایک کروڑ روپیہ انعام دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر والدین جوڈیشل کمیشن بنانے یا کوئی اور جے آئی ٹی یا اور آفیسر چاہتے ہیں تو وہ بھی ہم کرنے کو تیار ہیں۔
اس سے قبل پریا کماری کے والدین اور دھرنے میں موجود مذاکراتی کمیٹی کے وفد میں شامل سول سوسائٹی کے نمائندے شیما کرمانی، فہمیدہ ریاض، لیاقت جلبانی اور دیگر نے وزیراعلٰی ہاؤس میں وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار، پیپلز پارٹی کے ایم پیز مکیش کمار چاولا، لعل چند اکرانی، شام سندر سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس موقع پر پریا کماری کی بازیابی سے متعلق قائم کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی امجد شیخ، ایس ایس پی تنویر تنیو بھی موجود تھے۔