Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کے بعد پیچھے ہٹ رہی ہے؟

تجزیہ نگار احمد اعجاز کا خیال ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانا ممکن نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے اعلان پر عمل درآمد کے حوالے سے سوچ بچار میں پڑ گئی ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر عطااللہ تارڑ کے مطابق حکومت نے پابندی کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے مشاورت بھی کی ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی عملی قدم سامنے نہیں آیا ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے بعد عطااللہ تارڑ نے  اعلان کیا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگائے گی لیکن اس کے بعد ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ابھی اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
پھر حکومتی حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ پابندی کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا اور کابینہ سے اس کی باقاعدہ منظوری لی جائے گی۔
لیکن  بدھ کے روز جب کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا تو اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا نہ ہی اجلاس کے متعلق جاری کیے گئے اعلامیے میں اس کا ذکر کیا گیا۔
یہی نہیں بلکہ عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کا معاملہ بھی اعلانات کے باوجود کابینہ کے سامنے نہیں رکھا گیا۔

کابینہ اجلاس میں پی ٹی آئی کی مذمت

اس موضوع پر کابینہ میں اگر کوئی بات ہوئی تو وہ محض وزیراعظم شہباز شریف کا مذمتی بیان تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جس ٹولے نے 9 مئی کو غدر مچایا تھا، سب کو علم ہے کہ 2014 میں انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا، ٹیلی ویژن سینٹر پر انہوں نے حملہ کیا تھا، وزیراعظم ہاؤس کے اردگرد ان کے جتھے آگئے تھے۔‘
آج وہی نئے ہتھکنڈوں سے اور نئی وارداتیں کر رہے ہیں پاکستان کے خلاف، پاکستان کے پرامن شہریوں کے خلاف، افواج پاکستان کے خلاف، جس طرح ان کو مطعون کیا جا رہا ہے،  جس طرح ان کے نام لے لے کر، خود پاکستان کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر، پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ سے جس طرح ان کے خلاف اور ان کے خاندان کے خلاف جو باتیں کی جا رہی ہیں کبھی دیکھتی آنکھ نے اور سنتے کان نے اس طرح کا دلخراش منظر کبھی نہیں دیکھا۔‘

احمد اعجاز بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کرکے توجہ بٹانے کی ایک کوشش گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک لمحہ ہے جس کا ہمیں پوری طرح احساس کرنا ہو گا اور کسی صورت میں بھی مادر وطن کے خلاف، معصوم لوگوں کے خلاف اور افواج پاکستان کے خلاف کسی طور پر بھی ہم ایسا کوئی اقدام برداشت نہیں کریں گے۔‘
بتایا جا رہا ہے کہ حکومت ابھی پی ٹی آئی پر پابندی اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات چلانے کے لیے مزید سوچ بچار کر رہی ہے اور تمام اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اس پر حتمی فیصلہ کر کے اس معاملے کو کابینہ میں لے کر آئے گی۔

ناگزیر وجوہات پابندی نہیں لگنے دیں گی

تاہم سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ حکومت اس حد تک نہ جائے اور یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ملتوی ہو جائے۔
کالم نگار اور ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے اس بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگے گی۔‘
جب ان سے استفسار کیا گیا کہ وہ کیوں ایسا سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے ہی اعلان سے پیچھے ہٹ جائے گی تو انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت کو ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ موخر کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ زیادہ موخر ہو گیا تو پھر اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو پھر اس کا اعلان کیوں کیا تھا تو اجمل جامی نے کہا کہ ’اس کا مقصد پی ٹی آئی کی نبض دیکھنا اور اس طرح کے کسی ممکنہ اقدام کے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لینا تھا۔‘
تجزیہ نگار احمد اعجاز کا خیال ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانا ممکن نہیں ہے۔

اجمل جامی کا کہنا ہے حکومتی اعلان کا مقصد پی ٹی آئی کی نبض دیکھنا اور اس طرح کے ممکنہ اقدام کے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لینا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا ممکن نہیں کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے میں کامیاب ہوسکے۔ بالخصوص سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد ایسا ہوتا کسی صورت ممکن نہیں نظر آرہا۔‘
احمد اعجاز نے کہا کہ ماضی میں جتنی سیاسی جماعتوں پر پابندی کی کوششیں کی گئی ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔
’چاہے سیاسی جماعتوں پر پابندی، سیاسی حکومتوں کے ادوار میں لگائی گئی ہو یا آمریت کے ادوار میں۔ حالانکہ وہ ساری پارٹیاں  پی  ٹی آئی کی طرح مضبوط اور ان کے قائدین عمران خان کی طرح مقبول نہیں تھے۔‘

مسلم لیگ نون مشکل میں پڑ گئی

احمد اعجاز نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ ’لیکن اس فیصلے اور اس سے قبل پی ٹی آئی کے خلاف کیے گئے اقدامات نے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی حامی جماعت ن لیگ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔‘
یہ حکومت پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایسا فیصلہ کربیٹھی مگر یہ فیصلہ دیگر سیاسی جماعتوں جیسا کہ پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کی تنقید کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور ن لیگ بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔‘
احمد اعجاز بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کرکے توجہ بٹانے کی ایک کوشش گئی ہے اور یہ عمران پر دباؤ بڑھانے کا ایک حربہ تھا۔اس کے علاوہ میرے خیال میں اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔‘

شیئر: