Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مون سون بارشیں، نالہ لئی کے علاوہ کہیں بھی ’ارلی فلڈ وارننگ سسٹم‘ نصب نہیں  

’محکمہ موسمیات بارش کا باعث بننے والے سسٹم کو مانیٹر کر کے ایک ہفتہ قبل بارش کی پیش گوئی کرتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں مون سون جاری ہے اور اس موسم میں شدید بارشوں کے باعث اکثر سیلاب آجاتے ہیں۔ یہ سیلاب اتنے اچانک ہوتے ہیں کہ متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا جس وجہ سے ان کا سب کچھ سیلاب کی نظر ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے کئی محکمے مل کر کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے لیکن پر بار ان کے اقدامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور عوام کو پھر سے سیلاب کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے قبل از وقت سیلاب کی اطلاع دینے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ عوام کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے یا انہیں وارننگ دی جا سکے۔
پاکستان میں سیلاب کے حوالے سے محکمہ موسمیات کا ادارہ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (ایف ایف ڈی) سیلاب سے متعلق پیش گوئی کرتا ہے اور اس کی پیش گوئی کی روشنی میں فلڈ کمیشن، ارسا، واپڈا اور فوج مل کر فیصلے کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں ضلعی انتظامیہ کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ پاکستان میں اس وقت سیلاب کی وارننگ کے لیے کہاں کہاں سسٹم نصب کیے گئے ہیں اردو نیوز نے فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ راولپنڈی کے نالہ لئی کے علاوہ ملک بھر میں کہیں بھی سیلاب کی پیش گوئی کرنے والا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں چیف میٹرولوجسٹ شاہد عباس نے بتایا کہ ’ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کے لیے کوئی نظام نہیں لگایا گیا البتہ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن بارشوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اس بارش سے دریاؤں میں اتنا پانی آنے کا امکان ہے جس سے سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔‘
’بارشوں کے تناظر میں دریاؤں، ڈیموں اور بیراجوں میں پہلے سے موجود پانی اور نئے پانی کی متوقع آمد کا اندازہ لگا کر سیلاب کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔‘

چوری ہونے والا ’ارلی فلڈ وارننگ سسٹم‘ 2001 کے شہری سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جاپان نے تحفے میں دیا تھا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں عموماً بحیرہ عرب یا پھر خیلج بنگال سے بارش کا سسٹم بنتا ہے۔ ہم اس کو مانیٹر کرتے ہیں اور ایک ہفتہ پہلے بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں۔‘
’اگر وہ بارش اس حد تک ہو کہ ندی نالوں یا دریاؤں میں طغیانی یا سیلاب کا خدشہ ہو تو ہم تین چار دن پہلے بلیو الرٹ اور پھر ریڈ الرٹ جاری کرتے ہیں۔‘
شاہد عباس نے بتایا کہ ’ابھی تک پاکستان کے دریاؤں میں سیلاب کا کوئی خدشہ موجود نہیں، تاہم 29 یا 30 جولائی کو ہونے والی بارش سے چناب اور راوی سے ملحقہ ندی نالوں میں سیلابی صورت حال بن سکتی ہے البتہ دریاؤں میں ابھی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔‘
ایسے وقت میں جب بارشوں سے دریاؤں میں تو فوری طور پر سیلاب کا کوئی خدشہ نہیں ہے، تاہم بارشوں سے اربن فلڈنگ کا خدشہ ضرور موجود ہے۔
ایسی صوت حال میں ملک میں سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے اکلوتے ارلی فلڈ وارننگ سسٹم کو بھی چور پڑ گئے اور راولپنڈی میں کٹاریاں کے مقام پر لگے ہوئے آلات اتار کر لے گئے۔
تھانہ نیو ٹاؤن میں درج ایف آئی آر کے مطابق راولپنڈی میں نالہ لئی پر واقع کٹاریاں پُل پر نصب سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم رات گئے چوری کرلیا گیا۔  

راولپنڈی کے نالہ لئی کے علاوہ ملک میں کہیں بھی سیلاب کی پیش گوئی کرنے والا کوئی نظام موجود نہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’نامعلوم چور سولر پلیٹیں، بیٹریاں، الیکٹرونکس بورڈ اور لوہے کا دیگر سامان چُرا کرلے گئے ہیں۔ نامعلوم چور نے کمرے کا تالا توڑ کر رات کی تاریکی میں واردات کی اور لاکھوں روپے کا سامان لے اُڑا۔‘
اس حوالے سے ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ارلی فلڈ وارننگ سسٹم‘ 2001 کے شہری سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد 2006 میں جاپان کی حکومت نے تحفے میں دیا تھا۔‘
’اس سسٹم کے تحت چھ مقامات پر بارش کی مقدار ماپنے کے آلات اور دو مقامات پر نالہ لئی میں پانی کے بہاؤ کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے آلات نصب ہیں۔‘
ان کے مطابق ’راولپنڈی میں کٹاریاں اور گوالمنڈی دو مقامات ہیں جہاں پانی کا بہاؤ ماپنے کے لیے سسٹم لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی ایم اے کے تحت 10 وارننگ پوسٹیں بھی موجود ہیں جہاں سائرن وغیرہ نصب ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چوروں نے صرف کٹاریاں کے مقام پر نصب سسٹم کا سامان اور آلات چوری کیے تھے۔ جمعرات کو چوری ہوئی اور محکمہ موسمیات نے پیر سے قبل اس کی جگہ پر متبادل سسٹم نصب کر دیا ہے۔‘
’اس سے تھوڑا بہت فرق تو پڑے گا لیکن مجموعی طور پر ارلی فلڈ وارننگ سسٹم کام کر رہا ہے اور پیر کو ہونے والی بارش اور پانی کے بہاؤ کو اسی نظام کے تحت ہی مانیٹر کیا گیا ہے۔‘

شیئر: