Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور حزب اللہ میں تنازع پھر سے سر کیوں اُٹھا رہا ہے؟

اتوار کو ایک بیان میں اسرائیل نے کہا کہ وہ حزب اللہ پر سخت حملہ کرے گا (فوٹو: اے پی)
اسرائیل کے زیرقبضہ گولان کی پہاڑیوں میں ایک تباہ کن راکٹ حملے نے ان خدشات کو ہَوا دی ہے کہ اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ ایک مکمل جنگ کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اگرچہ فریقین نے اس سے قبل یہ واضح کیا تھا کہ وہ جنگ سے بچنا چاہتے ہیں تاہم اس حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں میں ایک فٹ بال گراؤنڈ پر راکٹ حملے میں 12 بچوں کی ہلاکت کا الزام حزب اللہ پر عائد کیا ہے۔
اتوار کو ایک بیان میں اسرائیل نے کہا کہ وہ حزب اللہ پر سخت حملہ کرے گا۔
حزب اللہ نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حملے کے الزام کی تردید کی ہے تاہم اسرائیل مُصر ہے کہ یہ حملہ لبنانی ملیشیا نے ہی کیا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان دشمنی کا پس منظر: اسرائیل اور حزب اللہ کیوں لڑ رہے ہیں؟
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر حملہ کرنے اور غزہ جنگ کو ہَوا دینے کے ایک دن بعد حزب اللہ نے 8 اکتوبر کو فائرنگ کا تبادلہ شروع کیا۔
حماس کی اتحادی تنظیم حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد اُن فلسطینیوں کی حمایت کرنا ہے جو غزہ میں اسرائیلی بمباری کی زد میں ہیں۔
غزہ جنگ نے پورے خطے میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حزب اللہ کو وسیع پیمانے پر ایران کے حمایت یافتہ نیٹ ورک کا سب سے طاقتور رکن سمجھا جاتا ہے، جسے مزاحمت کا محور کہا جاتا ہے۔
حزب اللہ نے بارہا مرتبہ کہا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوتی وہ اسرائیل پر اپنے حملے نہیں روکے گی۔

اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں میں فٹ بال گراؤنڈ پر راکٹ حملے میں 12 بچوں کی ہلاکت کا الزام حزب اللہ پر عائد کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسرائیل اور حزب اللہ متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں جن میں سے آخری جنگ 2006 میں لڑی گئی تھی۔
اسرائیل طویل عرصے سے حزب اللہ کو اپنی سرحدوں پر سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ اس کے ہتھیاروں میں اضافے اور شام میں قدم جمانے پر وہ پریشانی سے دوچار ہے۔
حزب اللہ کے نظریے کو اسرائیل کے ساتھ تنازع سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کی بنیاد 1982 میں ایران کے پاسداران انقلاب نے اسرائیلی افواج سے لڑنے کے لیے رکھی تھی جس نے اسی سال لبنان پر حملہ کیا تھا اور کئی برسوں تک گوریلا جنگ جاری رکھی جس کی وجہ سے اسرائیل کو 2000 میں جنوبی لبنان سے دستبردار ہونا پڑا۔
حزب اللہ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر قائم ہونے والی ایک ناجائز ریاست سمجھتی ہے اور اسے ختم ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔

اب تک جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

حالیہ تنازع نے پہلے ہی دونوں اطراف کو نقصان پہنچایا ہے۔
سکیورٹی ذرائع، طبی عملے اور حزب اللہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لبنان میں حزب اللہ کے تقریباً 350 عسکریت پسند اور 100 سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ڈاکٹرز، بچے اور صحافی شامل ہیں۔

حزب اللہ نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حملے کے الزام کی تردید کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسرائیلی فوج نے سنیچر کے راکٹ حملے کے بعد کہا کہ حزب اللہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں میں اکتوبر سے اب تک کم از کم 17 فوجیوں سمیت ہلاکتوں کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔

صورتحال کتنی بدتر ہو سکتی ہے؟

بہت زیادہ۔۔۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے دسمبر میں خبردار کیا تھا کہ اگر حزب اللہ نے وسیع پیمانے پر جنگ شروع کی تو بیروت کو ’غزہ میں تبدیل کر دیا جائے گا۔‘
حزب اللہ نے پہلے اشارہ دیا ہے کہ وہ تنازع کو وسیع کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے تاہم یہ بھی کہا کہ وہ خود پر مسلط ہونے والی کسی بھی جنگ سے لڑنے کے لیے تیار ہے۔
حزب اللہ کے نائب رہنما شیخ نعیم قاسم نے جون میں الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’تنازع کو وسعت دینے کے لیے اسرائیل کے کسی بھی اقدام کا نتیجہ اسرائیل میں تباہی اور نقل مکانی ہو گا۔‘

شیئر: