خیبرپختونخوا میں صوبائی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کرم قبائلی ضلع میں حکومتی کوششوں سے جنگ بندی ہو گئی تھی تاہم رات گئے فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مقامی پولیس نے بدھ سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 42 بتائی ہے جو تمام مرد ہیں جبکہ 183 افراد زخمی ہیں جن میں کچھ خواتین بھی شامل ہیں۔
اتوار کو ہلاکتوں کی تعداد 35 جبکہ زخمیوں کی تعداد 150 کے قریب بتائی گئی تھی۔
قبائلی اس ضابطے کے پابند ہیں کہ وہ لڑائی کے دوران خواتین، بچوں اور گھروں کو نشانہ نہ بنائیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ تشدد کے نتیجے میں ’عام شہریوں نے بھاری نقصان‘ اُٹھایا ہے۔
بیان کے مطابق ’ایچ آر سی پی کے پی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جنگ بندی کی ثالثی کی جائے، اسے برقرار رکھا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تمام جھگڑے خواہ زمین کے ہوں یا فرقہ وارانہ تنازع سے پیدا ہوئے ہوں، تمام سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے ساتھ کے پی حکومت کی طرف سے مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں۔‘
کرم میں پانچ دن تک زمین کے تنازع پر جاری رہنے والی لڑائی کے بعد متحارب قبیلے اتوار کو جنگ بندی پر رضامند ہو گئے تھے۔
ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نثار احمد خان نے بتایا تھا کہ ’حکام نے قبائلی عمائدین کی مدد سے دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ بندی کرا دی ہے۔ پولیس اب دونوں متحارب قبیلوں کے بنکروں اور خندقوں کو خالی کرانے اور ان کا کنٹرول سنبھالنے میں مصروف ہے۔‘
سابق وفاقی وزیر سجاد حسین طوری کا کہنا تھا کہ ’دونوں فریقین ایک دوسرے پر اور قریبی گاؤں پر ہلکے اور بھاری اسلحے سے گولہ باری کر رہے ہیں۔‘
افغان سرحد پر واقع ضلع کرم ماضی میں قبائلی لڑائیوں، مذہبی گروہوں اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے درمیان جھگڑوں کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں بھی رہا ہے۔
سنہ 2007 میں شروع ہونے والی لڑائی کئی سال جاری رہی جس کا تصفیہ 2011 میں قبائلی جرگے کے ذریعے کیا گیا۔
حالیہ لڑائی چھ دن پہلے زمین کے تنازع پر شروع ہوئی جو جلد ہی کئی گاؤں اور قریبی علاقوں تک پھیل گئی۔