بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی انڈیا کے لیے سفارتی مشکل
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی انڈیا کے لیے سفارتی مشکل
ہفتہ 10 اگست 2024 9:02
شدید احتجاجی مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی مطلق العنان وزیراعظم کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد رواں ہفتے ڈھاکہ میں جشن منایا گیا تاہم ہمسایہ ملک انڈیا میں خطرے کی گھنٹی بجی جس نے حریف ملک چین کا مقابلہ کرنے اور اسلام پسندوں کو دبانے کے لیے شیخ حسینہ کی حمایت کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال نے انڈیا کے لیے ایک سفارتی مشکل پیدا کر دی ہے۔
76 برس کی شیخ حسینہ واجد نے طلبہ تحریک کے احتجاج کے بعد پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے دیرینہ اتحادی نئی دہلی فرار ہو گئیں۔
جمعرات کو اقتدار سنبھالنے کے بعد بنگلہ دیش کے نئے عبوری رہنما محمد یونس کو انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ نئی دہلی ڈھاکہ کے ساتھ کام کے لیے پُرعزم ہے۔
چین نے بھی ڈھاکہ کے نئے عہدیداروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔
شیخ حسینہ کی حمایت کے بعد انڈیا کے لیے اب مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسسز گروپ کے تجزیہ کار تھامس کیئن نے کہا ہے کہ ’بنگلہ دیشیوں کے نقطہ نظر سے انڈیا گزشتہ چند برسوں سے غلط سمت میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انڈین حکومت بالکل بھی ڈھاکہ میں تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور برسوں سے یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ انہیں حسینہ واجد اور عوامی لیگ کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔‘
’کوئی بھی متبادل انڈین مفاد کے لیے نقصان دہ‘
دنیا کی دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک انڈیا اور چین، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ سمیت پورے جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے کے شدید حریف ہیں۔
شیخ حسینہ نے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے نئی دہلی کی حمایت سے فائدہ بھی اٹھایا اور بیجنگ کے ساتھ مضبوط تعلقات بھی برقرار رکھے۔
نئی دہلی نے بھی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سمیت ان تنظیموں کو مشترکہ خطرے کے طور پر دیکھا جن کو حسینہ نے حریف قرار دیا تھا اور ان کو طاقت سے کچل دیا تھا۔
واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کو اس بات کی فکر ہے کہ حسینہ اور عوامی لیگ کا کوئی متبادل انڈین مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نئی دہلی کے خیال میں بی این پی اور اس کے اتحادی خطرناک اسلام پسند قوتیں ہیں جو انڈین مفادات کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔‘
دوسری جانب محمد یونس نے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ’چند مہینوں کے اندر‘ انتخابات چاہتے ہیں۔
بی این پی رواں ہفتے ڈھاکہ میں ایک عوامی ریلی منعقد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
حسینہ کی برطرفی کے فوراً بعد ہندوؤں کے کاروباری مراکز اور مکانات پر حملے کیے گئے جن کو مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں کچھ لوگوں نے ان کے حامیوں کے طور پر دیکھا۔
اس ہفتے سینکڑوں بنگلہ دیشی ہندو انڈیا کی سرحد پر پہنچے جو سرحد پار کرنا چاہتے تھے۔
ہندو قوم پرست رہنما مودی نے جمعرات کو کہا تھا کہ وہ ’ہندوؤں اور دیگر تمام اقلیتیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور حالات معمول پر جلد آنے کی امید رکھتے ہیں۔‘
’وہ واپس جائیں گی‘
حقیقت یہ ہے کہ حسینہ کی انڈیا میں موجودگی نئی دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حسینہ ’بہت مختصر نوٹس پر‘ انڈیا پہنچی تھیں اور انڈین میڈیا کے مطابق ان کا ارادہ صرف مختصر قیام کا تھا۔
لیکن ان کی برطانیہ جانے کی منصوبہ بندی اس وقت ناکام ہو گئی جب لندن کی جانب سے ان کے اقتدار کے آخری ہفتوں میں ہونے والے مظاہروں پر مہلک کریک ڈاؤن کی ’مکمل اور اقوام متحدہ کی زیرقیادت آزادانہ تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا گیا۔‘
امریکہ نے انہیں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے جیسے معاملات میں ایک اتحادی کے طور پر دیکھا تاہم واشنگٹن نے حال ہی میں جمہوریت سے متعلق خدشات پر ویزا پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اب انڈیا میں کب تک رہیں گی یا وہ اور کہاں جا سکتی ہیں۔
نئی دہلی کے قریب فوجی ایئربیس پر پہنچنے کے بعد سے انہیں ایک خفیہ سیف ہاؤس میں رکھا گیا ہے اور ابھی تک عوامی سطح پر بات بھی نہیں کی۔
شیخ حسینہ واجد کے بیٹے نے کہا تھا کہ جب عبوری حکومت الیکشن کروانے کا فیصلہ کرے گی تو ان کی والدہ وطن واپس چلی جائیں گی۔
’دشمنی پال لی‘
انڈین میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو اب ’سخت سفارتی چیلنج‘ کا سامنا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے خبردار کیا کہ نئی دہلی کو نقصان کو محدود کرنے کے لیے فعال طور پر کام کرنا چاہیے۔
بنگلہ دیش کے نئے رہنما محمد یونس نے دی اکانومسٹ میں شائع اپنے مضمون میں انڈیا کو پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ کچھ مملک جیسے انڈیا نے مستعفی ہونے والی وزیراعظم کی حمایت کی اور اس نتیجے میں بنگلہ دیشی عوام کی دشمنی پالی تاہم اختلافات دور کرنے کے لیے بہت سے مواقع ہوں گے۔‘
کرائسز گروپ کے تھامس کیئن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں ممالک تعلقات کے لیے ماضی کو ایک طرف رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا، بنگلہ دیش کا سب سے اہم بین الاقوامی شراکت دار ہے، اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہ کر سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’معاشی قوتیں انہیں مل کر کام کرنے پر مجبور کریں گی۔‘