ایف بی آر بجلی کے بلوں پر کون کون سے ٹیکس وصول کر رہا ہے؟
ایف بی آر بجلی کے بلوں پر کون کون سے ٹیکس وصول کر رہا ہے؟
بدھ 14 اگست 2024 13:47
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
حکومت بجلی کے بلوں پر سالانہ 950 ارب روپے تک ٹیکس اکٹھا کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پاکستان میں بجلی کے بھاری بلوں کی ایک بڑی وجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے لگائے گئے بالواسطہ ٹیکسز ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر کے بجلی کے بلوں پر ٹیکسز سے سالانہ 950 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کرتا ہے۔
ایف بی آر اپنے سالانہ ٹیکس محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے بجلی کے بلوں پر بالواسطہ ٹیکس عائد کر رہا ہے۔ اِن ٹیکسز میں بڑی شرح جنرل سیلز ٹیکس کی ہے تاہم جی ایس ٹی کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں پر دیگر ٹیکس بھی عائد ہیں۔
ٹیکس اُمور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایف بی آر کی جانب سے بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کا نفاذ محصولات کا مجموعی ہدف پورا کرنے کے لیے ہے تاہم اُن کے مطابق ٹیکسوں کا یہ نفاذ ملک میں مہنگائی کا سبب بن رہا ہے۔
بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکس
اُردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق حکومت بجلی کے بلوں پر سالانہ 950 ارب روپے تک ٹیکس اکٹھا کر رہی ہے۔ اس وقت بجلی کے بلوں میں آٹھ طرح کے ٹیکس عائد ہیں جس کے تحت بجلی صارفین 9 روپے فی یونٹ کے حساب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
اس وقت بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکسوں میں جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس، ایکسٹرا سیلز ٹیکس، الیکٹریسٹی ڈیوٹی سمیت ٹی وی فیس شامل ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر کے ٹیکسز میں سے 390 ارب روپے وفاق کو ملتے ہیں جبکہ 560 ارب روپے کا حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے۔
دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کے بلوں پر ٹی وی فیس کی مد میں 14 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی بلوں پر عائد 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی ایف بی آر کو سالانہ 53 ارب روپے کا ریونیو دیتی ہے۔
ایف بی آر 7.5 فیصد ریٹیلرز سیلز ٹیکس کی مد میں 9 ارب اور ایکسٹرا سیلز ٹیکس کی مد میں 54 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر رہا ہے۔ بجلی بلوں پر مزید ٹیکس کی مد میں 13 ارب وصول کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے ایف بی آر نان فائلرز کے 25 ہزار کے بل پر ساڑھے7 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 4 ارب روپے حاصل کر رہا ہے۔ مزید برآں 10 سے 12 فیصد انکم ٹیکس مد میں حکومت 98 ارب روپے کے محصولات جمع کر رہی ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ایف بی آر گھریلو، کمرشل، صنعتی اور زرعی صارفین سے 18 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کر رہا ہے۔
’جہاں ٹیکس لگانا چاہیے وہاں ایف بی آر کو کامیابی نہیں ملتی‘
اس بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام ’بھتہ دینے کے نظام‘ کے مُترادف ہے جس کے ذریعے حکومت عوام کا استحصال کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایف بی آر کو جہاں جہاں موقع ملتا ہے ٹیکس عائد کر دیتا ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی چونکہ شہریوں نے ہر صورت کرنا ہوتی ہے اس لیے حکومت نے یہ مجبوری دیکھتے ہوئے اِس سے فائدہ اٹھایا ہے۔‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ایف بی آر کی مجموعی کارگردگی کے حوالے سے کہا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس لیکج کو روکنے میں مسلسل ناکام ہے۔ جہاں ٹیکس لگانا چاہیے وہاں ایف بی آر کو کامیابی نہیں ملتی۔‘
انہوں نے ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ان ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکس یعنی جی ایس ٹی وغیرہ کی شرح بہت زیادہ ہے اور اِن کی ادائیگی کے لیے معاشی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔
’خراب معاشی صورتحال میں بالواسطہ ٹیکسز کا نفاذ معیشت اور کاروبار کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ جہاں ٹیکس کی گنجائش نہیں ہے وہاں ایف بی آر مزید ٹیکس لگا رہا ہے۔‘
بجلی کے بلوں پر ٹیکسز کے معاملے پر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کا کام زور زبردستی سے ٹیکسز لگانا نہیں ہوتا۔ دیگر ٹیکسز کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں پر بھی 8 اقسام کے ٹیکسز صریحاً استحصالی اقدام ہے۔
’بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کا خاتمہ ممکن نہیں‘
دوسری جانب سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے بجلی کے بلوں پر سیلز ٹیکس کو جائز اقدام قرار دیا ہے۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم دوسری اشیا خریدتے وقت سیلز ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں اسی طرح بجلی کے بلوں پر سیلز ٹیکس کا نفاذ ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق موجودہ حالات میں بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ حکومت کا محصولات اکٹھا کرنے کا ہدف اور آئی ایم ایف کا پروگرام اس اقدام کی واپسی کی اجازت نہیں دیتا۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کا نفاذ کوئی نئی چیز نہیں اس اقدام کو تقریباً دس سال ہو چکے ہیں۔
اُن کے خیال میں بالواسطہ ٹیکسوں کا نفاذ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کیا جاتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ البتہ بہتر معاشی حالات ہونے کی صورت میں عوام کو ان ٹیکسز پر زیادہ سے زیادہ چھوٹ دینی چاہیے۔