ن لیگ، پی پی اور ایم کیو ایم کی بجلی بلوں پر محاذ آرائی: اصل تنازع گورنر سندھ؟
ن لیگ، پی پی اور ایم کیو ایم کی بجلی بلوں پر محاذ آرائی: اصل تنازع گورنر سندھ؟
منگل 20 اگست 2024 6:27
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بلاول بھٹو نے مراد علی شاہ سے کہا کہ اگلی مرتبہ وزیراعظم شہباز شریف کو سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کرائیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے صوبہ پنجاب میں بجلی کے بلوں پر دو ماہ کے لیے ریلیف دینے اور دوسرے صوبوں کے لوگوں کو اپنی حکومتوں سے اس کا مطالبہ کرنے کے مشورے کے بعد اس کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔
پیر کو کراچی کے ایک ہسپتال میں تقریب سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کو کراچی میں اچھے ہسپتالوں کی مثال سامنے رکھ کر پنجاب میں بھی ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے کا ’طعنہ‘ دیا ہے۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما مصطفٰی کمال کی جانب سے بھی بجلی کے بلوں پر ریلیف پورے ملک کے عوام کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے بعد تینوں اتحادیوں میں بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔
اس لفظی گولہ باری کا آغاز گذشتہ اتوار کو وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کی پریس کانفرنس کے بعد ہوا جس میں انہوں نے صوبہ پنجاب میں 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے فی یونٹ 14 روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما مصطفٰی کمال جن کی جماعت مرکز میں ن لیگ کی اتحادی ہے، نے مطالبہ کیا کہ یہ سہولت پورے ملک کے صارفین کو دی جائے۔ تاہم ان کی اس تجویز کو ماننے کی بجائے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے انہیں جواب دیا کہ وہ یہ مطالبہ سندھ حکومت سے کریں اور دوسرے صوبوں کی حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے ریلیف کا بندوبست کریں۔
مریم نواز کے اس جواب کے بعد پیر کے روز صوبہ سندھ کے وزیراعلٰی سید مراد علی شاہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’عجیب و غریب اعلانات سے ہم پریشانی میں آجاتے ہیں، ان بیوقوفی کے اعلانات کا کیا جواب دیں؟‘
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پتا نہیں ’لوگ ٹی وی پر آنے کے لیے وقت کیسے نکال لیتے ہیں، ہم کام بتانے سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ ہی بلاول بھٹو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ سے کہا کہ اگلی مرتبہ جب وزیراعظم شہباز شریف کراچی آئیں تو انہیں ضرور تین بڑے سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے دوران وزیراعظم ہسپتالوں کا پوچھ رہے تھے تو آئندہ جب بھی وزیراعظم کراچی آئیں تو انہیں قومی ادارہ برائے امراض قلب، جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر اور قومی ادارہ برائے امراض اطفال کا دورہ کروائیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ صوبہ پنجاب کو بھی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ لاہور میں بھی سندھ کی طرح مفت طبی امداد کی ایسی سہولیات موجود ہوں۔
بلاول نے کہا کہ ’ہم صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کو بھی پنجاب بھیجنے کے لیے تیار ہیں تاکہ لاہور میں بھی کراچی کی طرح مفت علاج کی سہولت مل سکے۔‘
’آپ لوگوں نے سنا ہو گا سندھ حکومت کام نہیں کرتی، ایکشنز سپیک لاؤڈر دین ورڈز۔‘
دوسری طرف سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں لفظی جنگ کی اصل وجہ بجلی کے بل نہیں بلکہ صوبہ سندھ میں نئے گورنر کی تعیناتی ہے۔
کیونکہ پیپلز پارٹی کامران ٹیسوری کو ہٹا کر کسی اور کو گورنر سندھ لگانا چاہتی ہے اور ن لیگ اس پر فی الحال آمادہ نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار اور اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک اس بارے میں کہتے ہیں کہ دونوں بڑی اتحادی جماعتوں کی بلوں کے مسئلے پر بیان بازی تو ساون کے بارش کی طرح ہے جو زرا سی دیر میں تھم جاتی ہے اور کہیں برستی ہے اور کہیں نہیں لیکن ان کے مابین رنجش کی اصل وجہ گورنر سندھ کی تبدیلی کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے بجلی بلوں پر صرف پنجاب میں ریلیف دے کر سولو فلائٹ لی ہے جس کی وجہ سے گورنر سندھ کے معاملے پر پہلے سے موجود اختلافات کو ہوا ملی ہے۔
’ن لیگ کو چاہیے تھا کہ تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ بیٹھ کر اس ریلیف کا اعلان کرتے اور ایسا لائحہ عمل بناتے جس سے سب کو فائدہ ہوتا لیکن ان کے ایسا نہ کرنے سے دوسری جماعتوں کی صوبائی حکومتیں دباؤ میں آ گئی ہیں۔‘
ڈاکٹر طاہر ملک نے کہا کہ اس وقت ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صوبے میں حکومت میں ہیں اور ن لیگ کے اس یکطرفہ اعلان کے بعد ان پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے کہ وہ بھی اپنے صوبوں میں بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’لیکن حققیقت یہ ہے کہ دیگر صوبے پنجاب کی طرح معاشی طور پر مضبوط نہیں ہیں اور بڑا ریلیف دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وجہ سے ان کے عوام میں اپنی حکومتوں کے خلاف جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘
جامعہ کراچی کی سماجی سائنس کی پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ انہیں کسی قسم کی بیان بازی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی کارکردگی اچھی ہو گی تو لوگ خود بخود ان کی پذیرائی کریں گے۔
’تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے صوبوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کریں۔ تینوں بڑی جماعتیں لوگوں کے مسائل حل کریں اور مل کر کام کریں۔ اچھی اور بری کارکردگی ہر جگہ ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر تمام سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں گی تو ملک کو حقیقت میں آگے لے جائیں گی۔ ان کی توجہ بیان بازی پر نہیں بلکہ اپنا اپنا کام درست انداز میں مکمل کرنے پر ہونی چاہیے۔‘