برطانیہ کا پاکستانیوں سمیت غیرقانونی پناہ گزین واپس بھیجنے کا فیصلہ
برطانیہ کا پاکستانیوں سمیت غیرقانونی پناہ گزین واپس بھیجنے کا فیصلہ
جمعرات 29 اگست 2024 17:24
جون کے اختتام تک ایک لاکھ 19 ہزار افراد پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کے منتظر تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)
برطانیہ کی لیبر حکومت نے پناہ کے متلاشی افراد کا بیک لاگ ختم کرنے کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت ملک میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کو اُن کے آبائی ممالک میں واپس بھیجنے کے لیے بڑی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
وزارت داخلہ نے اس حوالے سے ایک کانٹریکٹ کے لیے اشتہار جاری کیا ہے جس کے مطابق انہیں برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اُن کے آبائی ممالک میں واپس بھجوانے کے لیے کمرشل شراکت داروں کا تعاون درکار ہے۔
گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے تین برس کے اس معاہدے کی مالیت 15 کروڑ پاؤنڈ یا ایک کروڑ 97 لاکھ ڈالر ہے، اور یہ گذشتہ جمعرات کو فائنانشل ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ پناہ گزینوں کو 11 مختلف ممالک میں واپس بھجوانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
ان ممالک میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، البانیہ، ایتھوپیا، گھانا، عراق، جمیکا، نائیجیریا، ویت نام اور زمبابوے شامل ہیں۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس اقدام کا مقصد رواں برس کے اختتام تک 14 ہزار افراد کو ملک سے واپس بھجوانا ہے۔
گذشتہ ہفتے جاری ہونے والے سرکاری اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس جون کے اختتام تک ایک لاکھ 19 ہزار افراد اپنی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کے منتظر تھے۔
’حکومت امیگریشن قوانین پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ایسے افراد کو ملک بدر کیا جائے گا جو برطانیہ میں رہنے کا قانونی حق نہیں رکھتے۔‘
ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے مروجہ تمام قوانین کا احترام بھی کیا جائے گا اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں برس جنوری سے اب تک 10 ہزار سے زیادہ افراد پناہ کی تلاش میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
برطانیہ میں جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران چھوٹی کشتیوں پر برطانیہ میں غیرقانونی آمد کو روکنا ایک اہم معاملہ تھا۔
ملک میں عام انتخابات سے قبل لیبر پارٹی کے شیڈو امیگریشن وزیر سٹیفن کنوک نے کہا تھا کہ رشی سونک کی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مناسب کام نہیں کیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’چونکہ حکومت کی تمام کوششیں چند سو افراد کو روانڈا پہنچانے پر مرکوز ہیں، لیکن اس کی نظر ان ہزاروں افراد کی طرف نہیں ہے جو ہر ماہ انگلش چینل عبور کر رہے ہیں۔‘
اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں کے اندر برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کی متنازع سکیم ختم کر دی تھی۔
برطانوی وزیراعظم نے انسانی سمگلنگ کرنے والے گروہوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا جو چینل کراسنگ کا انتظام کرتے ہیں اور تارکین وطن سے ہزاروں یورو کا لین دین کرتے ہیں۔