Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیلندر، بالی وُڈ کا ’پشکن‘،جن کے گیت سوویت یونین اور چین میں بھی مقبول ہوئے

راج کپور نے شیلندر کو اپنی نظم ان کی پہلی فلم شامل کرنے کی پیشکش کی تو انہوں سے اسے ٹھکرا دیا (فوٹو: دی پرنٹ)
وہ ہاکی کھیلنا چاہتا تھا۔ بچپن کی ضد تھی جو پوری نہ ہو سکی کیونکہ وہ ایک دلت خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ برس بیتے تو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے لفظوں سے کھیلنے لگا۔ اُن دنوں ہی تقسیم کا شور اُٹھا، پنجاب کی دھرتی لہو رنگ ہو چکی تھی۔ 
نوجوان شاعر شیلندر نے انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ایک مشاعرے میں اپنی نظم ’جلتا ہے پنجاب‘ پڑھی۔
شرکا میں نوجوان اداکار راج کپور بھی شامل تھے۔ وہ شیلندر کے تقریباً ہم عمر ہی تھے اور جواں جذبوں کے ساتھ فلم پروڈکشن کی جانب آنے کا سوچ رہے تھے۔ وہ بھی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، اور کچھ فلموں میں بھی کام کر چکے تھا۔ یہ نظم سنی تو شیلندر کو اپنی بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر پہلی فلم ’آگ‘ میں شامل کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ نوجوان شاعر نے ٹکا سا جواب دے دیا۔
 بات آئی گئی ہو گئی۔ راج کپور نے فلم بنائی، یہ کامیاب تو نہ ہو سکی مگر لیجنڈ راج کپور کے ہدایت کار اور پروڈیوسر کے طور پر فنی سفر کا آغاز ہوا۔ اسی فلم میں بے مثل اداکارہ نرگس پہلی بار ان کے ساتھ بڑے پردے پر نظر آئی تھیں جن کے بعد دونوں کی جوڑی لازم و ملزوم ہو گئی۔
سال 1949 میں راج کپور اپنی ایک اور فلم ’برسات‘ کی فلم بندی میں مصروف تھے۔ شیلندر اپنی دنیا میں مگن تھے۔ ریلوے سے وابستہ تھے، تنخواہ میں بہ مشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہی ہو پاتا۔ ان حالات میں بیوی امید سے ہوئیں تو اضافی خرچے کی مد میں رقم کا بندوبست کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، جب کچھ بن نہ پڑی تو خود چل کر راج کپور کے پاس گئے اور کام مانگا۔ راج کپور پہلے سے ہی شیلندر کی شاعری کے مداح تھے، اور فلم کے لیے دو گیت چاہیے تھے تو انہوں نے یہ ذمہ داری شیلندر کو سونپ دی جس کا انہیں پانچ سو روپے معاوضہ ملا۔ 
اس فلم کی موسیقی موسیقاروں کی معروف جوڑی شنکر جے کشن نے دی تھی۔ شنکر لیجنڈری موسیقار خواجہ خورشید انور کے آرکسٹرا میں رہے تھے اور ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی اور اسی فلم کے مرہونِ منت سال 1950 میں راج کپور آر کے سٹوڈیوز خرید سکے۔
خیال رہے کہ اس فلم سے راج کپور، شنکر جے کشن، اور شیلندر کے درمیان ایک ایسی تخلیقی شراکت داری قائم ہوئی جو آنے والے برسوں میں بالی وڈ کے فلمی سنگیت کا ایک اہم حوالہ قرار پائی۔
’برسات‘ کے لیے شیلندر کے لکھے گیتوں،
’پتلی کمر ہے
ترچھی نظر ہے
کھِلے پھول سی تیری جوانی
کوئی بتائے کہاں کسر ہے‘
یا
’برسات میں
برسات میں
ہم سے ملے تم سجن
تم سے ملے ہم
برسات میں‘
کے لیے لتا جی اور مکیش نے آواز دی تھی جنہیں فلم بینوں کی جانب سے پسند کیا گیا اور راج کپور جو پہلے ہی شیلندر کی شاعری کے دلدادہ تھے، وہ یہ جان گئے کہ ان کا انتخاب درست تھا۔

شیلندر 1923 میں راولپنڈی میں ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

یہ عظیم شاعر اور گیت نگار آج ہی کے روز سال 1923 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں ایک دلت خاندان میں پیدا ہوا۔ والد انڈین ریاست بہار کے شہر بھوج پور سے ملٹری ہسپتال میں ملازمت کے لیے راولپنڈی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ کمسنی میں ہی والدہ چل بسیں اور کچھ ہی عرصہ بعد بہن نے بھی داغِ مفارقت دے دیا۔
 والد جو کماتے، اس سے بہ مشکل گزر بسر ہو پاتی تھی۔ ان دنوں ہی شیلندر ریلوے میں بھرتی ہو گئے اور ریاست اترپردیش کے شہر متھرا کا رُخ کیا۔ وہ دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو شاعری کر کے دل بہلاتے۔ یہ شوق تھا یا جنوں کہ وہ جلد ہی راج کپور کی نظروں میں آ گئے اور پھر ممبئی ہی ان کا مسکن قرار پایا۔
’برسات‘ کے بعد راج کپور کی ہی فلم ’آوارہ‘ ریلیز ہوئی جس کا گیت،
’آوارہ ہوں
آوارہ ہوں
یا گردش میں ہوں
 آسمان کا تارہ ہوں‘
انڈیا میں ہی نہیں بلکہ سوویت یونین، چین، ترکی، افغانستان اور رومانیہ میں بھی یکساں طور پر مقبول ہوا۔ یہ اُن جذبات کا اظہار تھا جنہیں شیلندر نے خود محسوس کیا تھا۔
 یہ گیت چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤ کے پسندیدہ گیتوں کی فہرست میں شامل تھا اور وہ اکثر اسے گنگنایا کرتے۔
سال 1955 کو ریلیز ہونے والی فلم ’شری 420‘ بڑے پردے پر تو کامیاب رہی ہی بلکہ اس نے شیلندر کے تخلیق سفر کو بھی ایک نئی جہت دی۔ اس فلم کے لیے ان کے گیتوں،
’میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی
پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘
اور
’پیار ہوا اقرار ہوا ہے
پیار سے پھر کیوں ڈرتا ہے دل‘
نے شہرتِ دوام حاصل کی۔ ہندوستان کو اس وقت تک آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا، وہ نسل ابھی جواں تھی جس نے جدوجہدِ آزادی میں حصہ لیا تھا، جن کے لیے گیت ’میرا جوتا ہے جاپانی‘ حب الوطنی کی علامت قرار پایا تو محبت کرنے والے دلوں کے لیے ’پیار ہوا اقرار ہوا‘ ترانہ بن گیا۔

مضمون کے مطابق ’یہ خداداد صلاحیت ہی تھی جس کے باعث شیلندر موضوعاتی (تھیم) گیت لکھنے کے ماہر بن گئے (فوٹو: دی پرنٹ)

’شری 420‘ کا ہی ایک اور گیت،
’دل کا حال سنے دل والا
سیدھی سی بات
نہ مرچ مسالہ
کہہ کے رہے گا کہنے والا
چھوٹے سے گھر میں غریب کا بیٹا
میں بھی ہوں ماں کے نصیب کا بیٹا
رنج و غم بچپن کے ساتھی
آندھیوں میں جلی جیون باتی
بھوک نے ہے بڑے پیار سے پالا‘
میں اُس طبقاتی تفریق کی جانب اشارہ ہے جس کا سامنا شیلندر نے خود کیا تھا، یہ بچھڑے ہوئے طبقات کے جذبوں کا بیاں ہے۔ اس میں وہ درد ہے جو کم سن شیلندر نے اپنی ماں کے بچھڑنے پہ سہا تھا، اس میں وہ تکلیف ہے جو شاعر نے اس وقت برداشت کی تھی جب وہ اپنی بیمار بہن کی صحت یابی کے لیے صبح شام برہنہ پا مندروں کے چکر کاٹا کرتے تھے مگر وہ اس کے باوجود جاں بر نہ ہو سکی تھی۔
اس میں اُس بھوک کا بیاں تھا جو شیلندر نے اپنے بچپن میں برداشت کی تھی لیکن یہ صرف شاعر کے جذبات کا اظہار نہیں تھا بلکہ ان کروڑوں غریب لوگوں کے احساسات کا بھی بیاں ہے جو اپنی تکلیفوں کو بھلا کر روز بھوک سے جھوجھتے ہیں، روز ایک نئی جدوجہد کرتے ہیں زندہ رہنے کی جدوجہد۔
فلم ’برسات‘ کے گیت ’برسات میں، ہم سے ملے تم سجن، تم سے ملے ہم‘ کے ذریعے شیلندر نے فلم کے پورے موضوع کو ایک ہی گیت میں کامیابی کے ساتھ سمو کر ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، جس کا اظہار فلم ’آوارہ‘ کے گیت ’آوارہ ہوں‘ اور بعد میں آنے والی فلموں میں بھی ہوا۔ اس بارے میں انڈین ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ’سکرول‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے،
’شیلندر یوں تو بہت سی خداداد صلاحیتوں سے مالامال تھے مگر ان میں نمایاں ان کی کہانی یا صورتِ حال کا خلاصہ سادہ اور خوبصورت الفاظ میں پیش کرنے کی صلاحیت  تھی۔ ایک بار راج کپور انہیں کہانی کار خواجہ احمد عباس کے ساتھ ملاقات کے لیے اپنے ساتھ لے گئے، جو اُن کی طرح ہی راج کپور کی تخلیقی ٹیم کا حصہ تھے۔‘
’کہا جاتا ہے کہ خواجہ احمد عباس نے اس دوران اپنی کہانی سنائی جب کہ وہ سارا وقت شیلندر کو نظرانداز کرتے رہے۔ وہ کہانی سنا چکے تو راج کپور نے شیلندر سے پوچھا کہ وہ اس پر کیا (شاعری کریں) بنائیں گے؟
شاعر نے بے ساختہ جواب دیا، ’گردش میں تھا، آسمان کا تارہ تھا، آوارہ تھا۔‘

انڈین شاعر گلزار نے کہا کہ ’نظم اور (گیت کے) بولوں کا جو فرق ہے، یہ سوائے شیلندر کے اور کسی بھی شاعر میں آج تک محسوس نہیں ہوا۔‘ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

خواجہ احمد عباس نے جو کہانی دو گھنٹوں میں بیان کی تھی، وہ شیلندر نے دو سطروں میں بیاں کر دی جس سے خواجہ احمد عباس کو یہ ادراک ہوا کہ انہوں نے اس خاموش طبع نوجوان کو بہت زیادہ نظرانداز کیا تھا۔ بعدازاں جب اس کہانی پر فلم ’آوارہ‘ بنی تو یہ سطریں اس فلم کے مرکزی گیت میں ڈھل گئیں۔‘
اس مضمون کے مطابق ’یہ خداداد صلاحیت ہی تھی جس کے باعث شیلندر موضوعاتی (تھیم) گیت لکھنے کے ماہر بن گئے۔ برسات، آوارہ، گائیڈ، جنگلی، دور کا راہی اور بہت سی فلموں کے مرکزی گیت انہوں نے ہی لکھے، اُن کے یہ گیت پوری فلم کی کہانی بیان کر دیتے۔ بسااوقات تو ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے محض موضوعاتی گیت ہی لکھا جب کہ دیگر گیت کسی اور شاعر نے لکھے۔‘
شیلندر نے اس دوران بمل رائے کی فلموں ’دو بیگھہ زمین‘، ’مدھومتی‘ اور ’بندنی‘ کے لیے بھی گیت لکھے۔ ’دو بیگھہ زمین‘ کے لیے اُن کا گیت،
’دھرتی کہے پکار کے
بیج بچھا لے پیار کے
موسم بیتا جائے، موسم بیتا جائے
اپنی کہانی چھوڑ جا
کچھ تو نشانی چھوڑ جا
کون کہے اس اور تو پھر آئے نہ آئے‘
فلم کے موضوع کا بہترین انداز میں احاطہ کرتا ہے۔ فلم ’بندنی‘ کے ذریعے گلزار کا گیت نگار کے طور پر سفر شروع ہوا تھا۔ وہ مگر شیلندر کی شاعری کے ہمیشہ مداح رہے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’شیلندر کی ویسے بھی ایک عوامی شاعر کی پہچان تھی، کمیونسٹ پارٹی کے لیے جگہ جگہ جلسوں میں بولنا اور لکھنا، ایک خاص شعبہ رہا اُن کا۔‘
’پھر فلموں میں داخل ہوئے۔ لیکن نظم اور (گیت کے) بولوں کا جو فرق ہے، یہ سوائے شیلندر کے اور کسی بھی شاعر میں آج تک محسوس نہیں ہوا۔ حالاں کہ مدھوک صاحب نے بڑے خوبصورت گانے لکھے اس پیریڈ میں لیکن اس وقت وہ گزر رہے تھے۔ شیلندر میں جو کوالٹی بولوں کی ہے، عام آدمی کی زبان میں بات کہہ دینا، ’میرا جوتا ہے جاپان، یہ پتلون انگلستانی، سر پہ لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘یا عوام کو  سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ ’ہم بگڑے ہوئے شہزادے‘، یہ انداز صرف شیلندر کا ہی تھا۔‘
شیلندر کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ سال 1959 میں فلم ’یہودی‘ کے گیت،
’یہ میرا دیوانہ پن ہے
یا محبت کا سرور
تو نا پہچانے تو ہے
یہ تیری نظروں کا قصور‘
پر ملا۔ اس ایوارڈ کا اجرا  ہوا ہی اس سال تھا جب کہ اس سے اگلے ہی برس اُن کو فلم ’اناڑی‘ کے گیت
’سب کچھ سیکھا ہم نے
نہ سیکھی ہوشیاری
کہ سچ ہے دنیا والو
ہم ہیں اناڑی‘
کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ گیت راج کپور پر پکچرائز ہوا تھا جب کہ اسے گلوکار مکیش نے گایا تھا جنہیں اس پر پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔

شیلندر کے گیتوں میں مختلف کیفیات کا اظہار اس فطری انداز میں  ہوتا ہے گویا وہ خود ان پر بیت رہی ہوں (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

یہ عظیم ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی بطور ہدایت کار دوسری فلم تھی جو بالی وڈ میں درمیانی دھارے کے سنیما کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب موسیقار عموماً پروڈیوسرز کو نغمہ نگار کا نام تجویز کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی کسی دن شنکر جے کشن نے شیلندر سے وعدہ کر لیا کہ وہ پروڈیوسرز کو اُن کا نام تجویز کریں گے مگر کئی برسوں تک جب ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو شیلندر نے شاعرانہ انداز میں شنکر جے کشن سے کچھ یوں شکوہ کیا،
’چھوٹی سی یہ دنیا
پہچانے راستے ہیں
کہیں تو ملو گے
تو پوچھیں گے حال‘
شنکر جے کشن کو اس پیغام کا بین السطور مفہوم سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی جنہوں نے فی الفور ان سطروں کو گیت میں ڈھالا جسے کشور کمار نے آواز دی اور یہ سال 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم ’رنگولی‘ میں شامل کیا گیا جس کے پروڈیوسر بے مثل افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی تھے جو اس فلم کے گیت مجروح سلطان پوری سے لکھوانا چاہتے تھے مگر شنکر جے کشن کے اصرار پر انہوں نے اس فلم کے لیے حسرت جے پوری کے علاوہ شیلندر سے بھی گیت لکھوائے۔
شیلندر نے فلمی گیت نگاری میں اپنا منفرد اسلوب متعارف کروایا۔ انہوں نے اس زمانے کے چلن سے انحراف کرتے ہوئے مشکل ہندی یا ادبی اردو کی بجائے آسان اور روزمرہ کی بول چال کی زبان میں شاعری کی اور عوام کے جذبات و احساسات کو اس آہنگ سے اپنی شاعری میں پرویا کہ بجا طور پر عوامی شاعر کا خطاب حاصل کیا۔
شیلندر کے گیتوں میں مختلف کیفیات کا اظہار اس فطری انداز میں  ہوتا ہے گویا وہ خود ان پر بیت رہی ہوں۔ آپ محمد رفیع کا فلم ’کالا بازار‘ کے لیے گیت ’کھویا کھویا چاند‘ سن لیجیے، آپ کے ذہن میں فی الفور ایک ایسے شخص کا خاکہ ابھرے گا جو چاند کی روشنی میں کھلے آسمان تلے اپنے محبوب کو یاد کر رہا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیلندر کو جب یہ گیت لکھنے کی پیشکش ہوئی تو وہ بمبئی میں ساحل سمندر پر آوارہ گردی کر رہے تھے۔ نوجوان آر ڈی برمن اُن کے ساتھ تھے، جنہیں والد ایس ڈی برمن کی جانب سے تاکید کی گئی تھی کہ وہ شاعر کو اسی صورت گھر جانے دیں جب وہ گیت لکھ دیں۔ شیلندر کو آمد ہوئی تو انہوں نے آر ڈی برمن سے ان کے سگریٹ کی ڈبیا مانگی اور اسی پر یہ گیت لکھ دیا۔

شیلندر کا تقریباً ہر گیت ہی فلم کی کہانی کو کچھ یوں آگے بڑھاتا ہے گویا وہ کہانی کا ہی حصہ ہو (فوٹو: دی پرنٹ)

فلم ’گائیڈ‘ کے گیت ’کانٹوں سے کھینچ کے یہ آنچل، چھوڑ کے بندھن باندھے پائل، کوئی نہ روکو دل کی اُڑان کو، دل وہ چلا، آج پھر جینے کی تمنا ہے، آج پھر مرنے کا ارادہ ہے‘ میں روزی (وحیدہ رحمان) کی اُن کیفیات کا اظہار ہے جو وہ دوبارہ سے زندگی جینے کی خواہش بیدار ہونے پر محسوس کر رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شیلندر کا تقریباً ہر گیت ہی فلم کی کہانی کو کچھ یوں آگے بڑھاتا ہے گویا وہ کہانی کا ہی حصہ ہو۔
سکرول میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’شیلندر سنیما کے میڈیم کے حوالے سے گہرا درک رکھتے تھے۔ اُن کے الفاظ عمدگی سے صورتِ حال (سچویشن) کا احاطہ کرتے اور کہانی کو آگے بڑھاتے۔ یہ گیت درحقیقت میوزیکل سکرین پلے کا کردار ادا کرتے۔‘
شیلندر اس وقت کامیابی کے سنگھاسن پر کھڑے تھے جب انہوں نے فلم ’تیسری قسم‘ پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار باسو بھٹہ چاریہ تھے جب کہ فلم کی کاسٹ میں راج کپور اور وحیدہ رحمان شامل تھے۔ لیکن اُن پر جلد ہی یہ ادراک ہو گیا کہ ان جیسا تخلیقی اور حساس انسان فلم پروڈکشن کے لیے موزوں نہیں ہے۔ کبھی راج کپور وقت نہ دیتے تو کبھی کوئی اور مشکل آڑے آ جاتی۔
یہ فلم چار برسوں میں مکمل ہوئی۔ سال 1966 میں جب بالآخر یہ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی، شیلندر کو گہرا صدمہ پہنچا۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کے صاحب زادے دنیش شیلندر نے فلم کی ریلیز کے کچھ دن بعد پیش آنے والا واقعہ بیان کیا کہ ’ایک روز میرے بھائی منوج شیلندر نے والد کو اپنی ڈائری میں کچھ لکھتے دیکھا۔ انہوں نے استفسار پر بتایا کہ وہ یہ حساب کتاب کر رہے ہیں کہ ان کو اپنا نقصان پورا کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے منوج کو کہا تھا کہ وہ گیت لکھنے کا جو معاوضہ وصول کرتے ہیں، اس سے یہ نقصان چند ہی مہینوں میں پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن دل کی گہرائی سے وہ یہ جانتے تھے کہ لوگوں پر ان کا جو اعتماد ڈگمگایا تھا، وہ کبھی بحال نہیں ہو سکتا۔‘

شیلندر نے اپنے مختصر کیریئر میں 900 سے زیادہ گیت لکھے (فوٹو: دی پرنٹ)

اور یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث شیلندر نے مے نوشی میں پناہ لی اور گیت لکھنے سے انکار کرنے لگے۔ فلم ’جیول تھیف‘ کے گیت ’رُلا کے گیا سپنا میرا‘ لکھنے کے بعد فلم کے پروڈیوسر وجے آنند سے مزید گیت لکھنے سے معذرت کر لی اور اسی سال 14 دسمبر کو یہ عظیم تخلیق کار چل بسا۔ اُس وقت اُن کی عمر محض 43 برس تھی۔ انہوں نے مگر اپنے مختصر کیریئر میں وہ کامیابی حاصل کی جو بہت سے تخلیق کاروں کی برسوں کی ریاضت پر بھاری ہے۔
شیلندر کی موت کے بعد ’تیسری قسم‘ کو اس سال کی بہترین فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا اور اسے آج ایک کلٹ فلم کا درجہ حاصل ہو چکا ہے مگر یہ وہ فلم ہے جس نے شیلندر کی جان لے لی۔ یہ اُن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی جس نے اُن کے بہت سے اپنوں کے چہروں سے پردے اتار دیے۔
شیلندر نے اپنے مختصر کیریئر میں 900 سے زیادہ گیت لکھے اور تین بار بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ راج کپور شیلندر کو بالی وڈ کا پشکن کہا کرتے تھے جو عظیم روسی شاعر کی طرح ہی انقلاب و محبت کے گیت لکھتے لکھتے چل بسے، مگر اُن کے لکھے گیت آج بھی سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔

شیئر: