کچے کے مبینہ ڈاکوؤں کے یوٹیوب چینل کے پیچھے کہانی کیا ہے؟
کچے کے مبینہ ڈاکوؤں کے یوٹیوب چینل کے پیچھے کہانی کیا ہے؟
منگل 3 ستمبر 2024 14:37
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
شاہد لنڈ بلوچ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہوں نے یوٹیوب چینل بنایا۔ فائل فوٹو: یوٹیوب سکرین گریب
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گزشتہ مہینے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 12 پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد حکومت کو ڈاکوؤں سے ایک نئے محاذ پر بھی مقابلہ درپیش ہے۔
اہلکاروں کی اموات کے بعد پنجاب کے محکمہ داخلہ نے پولیس کی درخواست پر کچے کے 20 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت دس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کرنے کا اعلان کیا اور اس کے اشتہارات چھپوائے تو جواب میں ڈاکو سوشل میڈیا کے ذریعے ’صورتحال بیان کرتے نظر آئے۔‘
اشتہار میں سر کی قیمت مقرر کیے جانے کے بعد ایک مبینہ ڈاکو شاہد لنڈ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ خود ہی اشتہار میں محکمہ داخلہ کے دیے ہوئے نمبر پر کال کرتے ہوئے سرکاری اہلکار سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کا نام شامل کیوں کیا گیا ہے؟
فون اٹھانے والا سرکاری اہلکار انہیں کہتا ہے کہ وہ اس حوالے سے اعلٰی حکام سے بات کریں گے۔ مبینہ ڈاکو کی ویڈیو وائرل ہوئی تو شاہد لنڈ نے اپنا باقاعدہ یوٹیوب چینل بنا لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند روز بعد انہوں نے اپنے ایک دوست کا چینل بنا کر دیکھنے والوں سے درخواست کی کہ ان کا چینل بھی سبسکرائب کریں۔
کچے کے مبینہ ڈاکوؤں کی سوشل میڈیا تک غیرمعمولی اور آسان رسائی پر حیرت ظاہر کی جا رہی ہے۔
شاہد لنڈ کا کہنا ہے کہ ان کی کہانی وہ نہیں جو میڈیا پر بتائی جا رہی ہے اور یہ کہ انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جب شاہد لنڈ کا رابطہ نمبر ڈھونڈا تو وہ آسانی سے مل گیا اور وہ اس پر دستیاب بھی تھے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اکثر صحافیوں سے رابطے میں ہیں۔
شاہد لنڈ کی دلچسپ توجیہہ:
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یوٹیوب چینل کیوں کھولا ہے اور ان کی کہانی ہے کیا؟ تو اس پر شاہد لنڈ نے جواب دیا کہ ’یوٹیوب چینل اس لیے کھولا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اور ہم کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم آپ کو اپنی کہانی کیوں سنائیں اس سے ہمیں کیا ملے گا؟ پہلے ہی سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف اتنی باتیں ہو رہی ہیں۔‘
وہ فون کال کے بجائے واٹس ایپ وائس میسجز پر بات کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس سوال کا جواب دیں کہ حکومت نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے کیوں رکھی ہے اور وہ مطلوب کیوں ہیں۔
ایک خاتون صحافی شاہین مشعال نے بھی شاہد لنڈ سے رابطہ کیا۔ شاہین مشعال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے شاہد لنڈ سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ میڈم ! مجھے اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پیجز کے لنک بھیجیں اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ آپ کے سبسکرائبر کتنے ہیں، اس کے بعد آپ سے بات ہو سکے گی۔ ایسا محسوس ہوا کہ انہیں صرف سوشل میڈیا پر مشہور ہونے سے دلچسپی ہے اور وہ ہر چیز کو اسی لینز سے دیکھ رہے ہیں۔‘
صحافی شاہین مشعال نے بتایا کہ ’شاہد لنڈ کو یہ بھی مسئلہ تھا کہ اُن کے اصل یوٹیوب چینل پر زیادہ سبسکرائبر نہیں ہیں جبکہ اُن کے نام سے بنے جعلی اکاونٹ زیادہ وائرل ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ یوٹیوب کا چینل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو جواب ملا کہ فیس بک اور ٹک ٹاک پر میرے فالوورز لاکھ تک پہنچ گئے تو اکاونٹ بند کردیے گئے اس لیے اب یوٹیوب چینل بنایا ہے۔‘
اب تک کی شاہد لنڈ کی یوٹیوب پر جاری کی گئی ویڈیوز کا تجزیہ کریں تو اس میں وہ اس بات کا خیال رکھتے پائے گئے ہیں کہ پیچھے پاکستان کا جھنڈا ہو اور آخر میں وہ افواج اور پاکستان کے لیے نعرہ بھی ضرور لگائیں۔
وہ پولیس کے خلاف بات کرنا بھی نہیں بھولتے تاہم اگر ان کو کسی چیز میں دلچسپی نہیں تو وہ یہ کہ آخر ان کا نام ڈاکوؤں کی فہرست میں ہے ہی کیوں اور اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع وہ کیسے کریں گے؟ جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یوٹیوب چینل سنجیدہ نوعیت کے بجائے غیرسنجیدگی پر مبنی ہے۔ ان کا مسئلہ شہرت اور فالوورز کی تعداد بڑھانا ہے۔
دوسری طرف محکمہ داخلہ پنجاب یا پولیس اس حوالے سے شاہد لنڈ کو جواب نہیں دے رہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے ایک اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کچے کے علاقے میں اب تک ہونے والے جرائم کے مقدمات درج ہیں جس کے خلاف جتنے گھناؤنے جرائم کے مقدمات ہیں اسی حساب سے وہ مطلوب ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وہ 20 جرائم پیشہ افراد چنے جن پر سب سے زیادہ مقدمے ہیں۔ یہ اشتہار ہم نے اس وجہ سے نہیں جاری کیا تھا کہ شاہد لنڈ رحیم یار خان میں پولیس پر حملے میں ملوث ہیں۔‘
محکمہ داخلہ کے افسر کے مطابق ’ہم قانون کے تحت چل رہے ہیں اور ان تمام جرائم پیشہ افراد کو کٹہرے میں لائیں گے۔ تمام سرکاری افسران کو ایسے عناصر کی بے سروپا سوشل میڈیا مہم کو نظرانداز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مجرموں کی باتوں کے جواب نہیں دیے جاتے ان سے صرف قانون کے مطابق نمٹا جاتا ہے۔‘