Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آغا شاہی: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے معمار اور کئی سفارتی محاذوں کے فاتح

آغا شاہی پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانے کے حق کے بھی سخت حامی تھے۔ فائل فوٹو
یہ جولائی 1980 کی بات ہے جب پاکستان کے وزیر خارجہ انڈیا کے سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے تھے۔ انھیں اس دورے کے دوران جہاں پاک انڈیا تعلقات کے حوالے سے سنگین صورت حال کا سامنا تھا وہیں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغان مجاہدین کی حمایت پر تنقید کا بھی سامنا تھا۔
ایسے میں وہ ایک کانفرنس میں شریک تھے جہاں شرکا نے پاکستان کی اس پالیسی پر کھل کر تنقید کی۔ جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک شاندار تقریر کی۔
اپنے خطاب کے دوران نے انھوں نے نہ صرف پاکستان کے موقف کا دفاع کیا بلکہ علاقائی اور عالمی سلامتی پر سوویت حملے کے وسیع تر اثرات کو بھی اجاگر کیا۔
ان کے دلائل اتنے زبردست تھے کہ انہوں نے بین الاقوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی غیر فیصلہ کن اقوام کو پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر مجبور کیا۔
یہ وزیر خارجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بحیثیت سول سرونٹ معمار کا کردار ادا کرنے والے آغا شاہی تھے جنھیں ضیاءالحق نے اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔

 آغا شاہی کون تھے؟

آغا شاہی پاکستان کے ممتاز ترین سفارت کاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے ملکی تاریخ کے نازک لمحات میں خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے کیریئر میں نہ صرف اہم کامیابیاں ہیں بلکہ دلچسپ واقعات بھی ہیں جو ان کی سفارتی ہوشیاری اور سٹریٹیجک سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کی زندگی اور خدمات کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے ’شاہی صاحب پاکستان کے بہترین سفارتکاروں میں سے ایک تھے۔ پاکستان کے قومی مفادات کے دفاع میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘
آغا شاہی 25 اگست 1920 کو بنگلور، برطانوی ہندوستان، میں عوامی خدمت کی روایت رکھنے والے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بنگلور میں حاصل کی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی، اس کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
اس تعلیمی پس منظر نے انہیں عالمی سیاست اور بین الاقوامی قانون میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کی، جو بعد میں سفارت کاری میں ان کے کام کے لیے اہم تھی۔
آغا شاہی کا 1941 میں انڈین سول سروس (ICS) میں شمولیت سفارت کاری میں ایک شاندار کیریئر کا آغاز تھا۔ ان کی ابتدائی پوسٹنگ مختلف انتظامی کرداروں میں ہوئی، لیکن 1947 میں تقسیم ہند نے جلد ہی ان کے کیریئر کا رخ بدل دیا۔
پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد آغا شاہی نے فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی گہری ذہانت، لگن اور پیچیدہ سیاسی مناظر کو نیویگیٹ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے وہ جلد ہی اگلی صفوں میں جگہ بنا چکے تھے۔
ان کے سفارتی کیریئر کا آغاز 1951 میں اس وقت ہوا جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اقوام متحدہ میں ان کا کام بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی موجودگی کو قائم کرنے میں اہم تھا۔

آغا شاہی انڈیا کے دورے کے دوران انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ۔ (فوٹو: ٹائمز کنٹنٹ ڈاٹ کام)

اگلی دو دہائیوں کے دوران آغا شاہی نے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ سمیت متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی ذمہ داریاں بھی شامل تھیں۔
یورپ میں ان کے کام نے ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مستحکم کیا اور بیرون ملک پاکستان کا مثبت امیج بنانے میں مدد کی۔

بطور سیکریٹری خارجہ غیر وابستہ پالیسی کے معمار

آغا شاہی کا سب سے اہم کردار اس وقت سامنے آیا جب وہ 1973 میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ مقرر ہوئے۔ یہ دور اہم جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے بھرپور تھا۔ جس میں انڈیا کے ساتھ 1971 کی جنگ کے بعد کی صورت حال اور دونوں ممالک کے درمیان فیصلہ کن مذاکرات کا مرحلہ بھی شامل تھا۔
مذاکرات کے دوران آغا شاہی نے پاکستانی وفد کو رہنمائی فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک مضبوط لیکن عملی نقطہ نظر کی وکالت کی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ تنازع کے پرامن حل کی کوشش کرتے ہوئے کشمیر پر اپنی پوزیشن پر سمجھوتہ نہ کرے۔
معاہدے کی حتمی شرائط کی تشکیل میں ان کا اثر و رسوخ نمایاں تھا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔
سیکرٹری خارجہ کے طور پر اپنے دور میں آغا شاہی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو غیر وابستگی کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر سرد جنگ کے تناظر میں انہوں نے امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ نازک توازن برقرار رکھتے ہوئے مسلم دنیا، چین اور غیروابستہ تحریک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر کام کیا۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں پاکستان کے کردار اور فلسطینیوں اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے حقوق کی وکالت کرنے میں اس کی قیادت میں ان کی سفارتی ذہانت واضح تھی۔
آغا شاہی کے حوالے سے دی مسلم کے سابق ایڈیٹر اور سابق وزیر سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ ’ آغا شاہی اپنی زندگی میں ایک لیجنڈ تھے، ایک شاندار سرکاری ملازم کے طور پر انھوں نے شاندار خدمات انجام دیں۔ جب وہ ڈی سی، ٹھٹھہ تھے تو روانی سے سندھی بولتے تھے۔‘

آغا شاہی1980 میں انڈیا کے دورے کے دوران اس وقت کے انڈین وزیر خارجہ نرسما راؤ کے ساتھ (فوٹو: ٹائمز کنٹنٹ ڈاٹ کام)

انھوں نے کہا کہ ’آغا شاہی پاکستان کے اب تک کے بہترین وزرائے خارجہ میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک پکے پاکستانی قوم پرست تھے جنہوں نے چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اقوام متحدہ میں مؤثر طریقے سے پاکستان کی نمائندگی کی جہاں ان کی سفارتی قیادت نے اقوام متحدہ میں چین کے داخلے کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔
افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد عالمی برادری کو متحرک کیا۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی۔
مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’وہ پاکستان کے سب سے زیادہ باشعور اور پڑھے لکھے وزرائے خارجہ میں سے ایک تھے جنہوں نے بہترین انداز میں ملک کی خدمت کی۔‘

بطور وزیر خارجہ پاکستان کے موقف کی عالمی سطح پر ترجمانی

 1977 میں آغا شاہی کو پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ یہ کردار انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1982 تک ادا کیا۔
وزیر خارجہ کے طور پر آغا شاہی کی سفارتی صلاحیتوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں کئی بار آزمایا گیا۔ انہوں نے اپنے پڑوسیوں بالخصوص انڈیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آغا شاہی 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد ہونے والے مذاکرات میں ایک اہم شخصیت تھے۔ افغان مجاہدین کو مدد فراہم کرنے کی پاکستان کی پالیسی بنانے میں ان کی کوششیں اہم تھیں۔
اس پالیسی کے پاکستان اور خطے کے لیے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔  اس میں آغا شاہی کا کردار مورخین کے درمیان مطالعہ اور بحث کا موضوع ہے۔
1980 میں نئی دہلی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں افغان مزاحمت کے لیے پاکستان کی حمایت پر تنقید ہوئی تو آغا شاہی نے ایک شاندار تقریر کی جس نے نہ صرف پاکستان کے موقف کا دفاع کیا بلکہ علاقائی اور عالمی سلامتی پر سوویت حملے کے وسیع تر اثرات کو بھی اجاگر کیا۔
ان کے دلائل اتنے زبردست تھے کہ انہوں نے بین الاقوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی غیر فیصلہ کن اقوام کو پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر مجبور کیا۔
ایک اور واقعہ جو نمایاں ہے وہ افغان تنازع کے دوران امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان کی مہارت سے نمٹنے کا ہے۔ جب تنازع میں پاکستان کے کردار کے بارے میں امریکی توقعات پر تناؤ پیدا ہوا تو آغا شاہی ایسی شرائط پر بات چیت کرنے میں کامیاب ہو گئے جنھوں نے پاکستان کے لیے فوجی اور اقتصادی امداد کو محفوظ بنایا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب آغا شاہی 1971 میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران (فوٹو: بشکریہ ڈاکٹر علان نبی قاضی)

آغا شاہی پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانے کے حق کے بھی سخت حامی تھے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ابتدائی مراحل میں شامل رہے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ایٹمی عزائم کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے جوہری عدم پھیلاؤ کے بارے میں پاکستان کے موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سلامتی کے خدشات، خاص طور پر انڈیا کے حوالے سے، جوہری ڈیٹرنٹ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے سابق ترجمان اور برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر نفیس ذکریا نے آغا شاہی کے حوالے سے کہا کہ ’وزارت خارجہ کی تاریخ میں آغا شاہی کا ایک بڑا نام اور مقام ہے۔ دفتر خارجہ کی ایک عمارت کا ان کے نام سے منسوب ہونا ان کی خدمات کا اعتراف اور دلیل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز موجود ہیں جہاں اس وقت کی قیادت نے کردار ادا کیا۔
اس میں آغا شاہی نے بھی مختلف حیثیتوں میں اپنی کارکردگی کے ذریعے تاریخ رقم کی بلکہ عالمی سطح پر ان کے کام کے اثرات ان کے نام کو طویل عرصے تک زندہ رکھیں گی۔‘

 آغا شاہی کی سفارتی میراث

فعال سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد آغا شاہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں ایک بااثر شخصیت رہے۔ وہ پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالتے رہے اور قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے معاملات پر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں میں ان سے مشورہ کیا جاتا رہا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آغا شاہی کی خدمات کو اندرون اور بیرون ملک تسلیم کیا گیا۔ انہیں قوم کے لیے خدمات کے صلے میں نشان امتیاز سے نوازا گیا، جو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے۔
آغا شاہی کا انتقال 6 ستمبر 2006 کو 86 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کی وفات سے پاکستان کی سفارتی تاریخ میں ایک دور کا خاتمہ ہوا۔
آغا شاہی کی زندگی اور کیریئر پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے کام نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی، خاص طور پر سرد جنگ کے چیلنجنگ دور میں، اور سفارت کاروں، اسکالرز اور پالیسی سازوں کے درمیان ان کی خدمات اور فیصلوں کا تجزیہ اب بھی جاری ہے۔ ان کی وراثت بین الاقوامی تعلقات میں سفارت کاری، سٹریٹجک سوچ اور امن کے حصول کی اہمیت پر مبنی ہے۔

شیئر: