’میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ طالب علم صنعت اور تجارت کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ آپ زمینداروں سے کہیں کہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔‘
قائد اعظم کا جواب تھا ’دیکھو نوجوان طلبہ کے لیے مختلف شعبہ جات کا مطلب ہے کہ وہ پڑھائی کے لیے بھی اسی طرح کے مختلف مضامین کا انتخاب کریں۔‘
بانی پاکستان سے یہ مکالمہ 1946 میں ایک نوجوان طالب علم نے کیا تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور کا یہ طالب علم قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ مگر اس ہدایت کے بعد انہوں نے کامرس کے مضامین میں اعلی تعلیم کا فیصلہ کر لیا۔
مزید پڑھیں
-
جب فوجی جوانوں نے ’مارشل لا خان‘ کو تھپڑ جڑ دیےNode ID: 806876
94 برس کی عمر میں منگل کی شام کو اسلام آباد میں وفات پانے والے سرتاج عزیز کی زندگی کا یہ واقعہ انہوں نے اپنی آب بیتی میں درج کیا ہے۔
معاشی امور، امور خارجہ کی وزارتوں اور سینٹ آف پاکستان کے طویل عرصے تک ممبر رہنے والے ٹیکنوکریٹ اور سینیئر سیاست دان سرتاج عزیر نے 1953 میں بحیثیت بحیثیت سول سرونٹ اپنے کیریئر کا اغاز کیا۔
70 کی دہائی میں اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں خدمات سر انجام دی۔ زرعی معشیت میں خصوصی مہارت کی وجہ سے 1984 میں ضیا الحق کی کابینہ میں خوراک و زراعت کے وزیر مملکت بنائے گئے۔
سرتاج عزیز کی سیاسی زندگی کا زیادہ حصہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ گزرا۔ ان کے تینوں ادوار میں بحیثیت وزیر اور مشیر ان کی کابینہ میں شامل رہے۔
پولیس افیسر کے بجائے اکاؤنٹ افیسر
سرتاج عزیز 27 فروری 1929 کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے مردان کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان میں پیدا ہوئے۔

والد صوبائی حکومت میں ملازم تھے جب کہ والدہ کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔
اسلامیہ کالج لاہور میں دوران تعلیم وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کے رضاکار کے طور پر حصہ لیا۔
قائد اعظم سے ہونے والی گفتگو سے متاثر ہو کر پنجاب یونیورسٹی میں کامرس کی تعلیم کے ادارے ہیلی کالج سے بی کام کی ڈگری پائی۔
انہوں نے اپنی تعلیم اور رحجان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تو انہیں پولیس گروپ میں شمولیت کی پیشکش کی گئی۔
سرتاج عزیز کے بقول وہ معاشی انتظام اور نئے آئیڈیاز کی طاقت کو بیوروکریسی کی روایتی انتظامی طاقت پر فوقیت دیتے تھے۔
اسی تصور کے زیر اثر انہوں نے پولیس گروپ میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ متبادل کے طور پر ملٹری آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا انتخاب کیا۔
60 کی دہائی میں مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کی زیر سرپرستی پلاننگ کمیشن میں شمولیت اختیار کی۔ اسی دوران انہیں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ایوب دور میں پاکستان کے دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے کوروبہ عمل لانے والی ٹیم کے اہم ممبر کے طور پر کام کیا۔
بھٹو کی تقریر اور امریکن سینٹر کی آتش زدگی
سرتاج عزیز نے پلاننگ کمیشن کے چیئرمین سعید حسن اور محبوب الحق کے ساتھ امریکہ کی طرف سے تیسرے ترقیاتی منصوبے کی اقتصادی امداد کے بارے میں مذاکرات کرنے واشنگٹن گئے۔
واپسی پر صدر ایوب سے ملاقات میں انہیں علم ہوا کہ امریکہ ورلڈ بینک پر پاکستان کو دی جانے والی امداد معطل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ صدر ایوب نے انہیں امریکی سفیر سے مل کر معاملات سلجھانے کی ہدایت کی۔
سرتاج عزیز اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’امریکی سفیر سے ملاقات سے قبل ہی کراچی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے پر جوش انداز میں آزاد خارجہ پالیسی پر مصلحت سے انکار پر مبنی تقریر کر ڈالی۔‘
انہوں نے ممبران اسمبلی سے پوچھا کہ کیا ہمیں امداد کہ عوض اپنے مفاد کا سودا کرنا چاہیے۔ اسمبلی فلور سے نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہوئی۔
سرتاج عزیز کے مطابق اسمبلی کے فلور پر ہونے والی اس کارروائی کا یہ اثر ہوا کہ اگلے روز کراچی میں مظاہرین نے امریکی انفارمیشن سینٹر کو اگ لگا دی۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیوں ملتوی ہوئی؟
اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر سمیت دیگر بین الاقوامی ترقیاتی اداروں میں خدمات کے وسیع تجربے نے سرتاج عزیز پر ضیا الحق کی غیر منتخب کابینہ میں وزارت کا دروازہ کھول دیا۔
انہیں 1984 میں خوراک اور زراعت کا وزیر مملکت تعینات کیا گیا۔ اس دور کہ چھٹے پانچ سالہ منصوبے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ذریعے زراعت اور آبی وسائل کو ترقی دینے کا بہت شو رہ تھا۔
ستمبر 1984 میں کابینہ کی میٹنگ میں صدر ضیا الحق نے سیاسی معاملات اور بحث و مباحثے کو ایک طرف رکھ کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ چھیڑ دیا۔
سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ انہیں یوں لگا کہ میٹنگ کے اختتام کے بعد صدر چیئرمین واپڈا کو بلا کر ڈیم کی تعمیر کا حکم نہ دے دیں۔
