Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرتاج عزیز صدر پاکستان کیوں نہ بن سکے؟

1984 میں ضیا الحق کی کابینہ میں سرتاج عزیز خوراک و زراعت کے وزیر مملکت بنائے گئے۔ (فوٹو: روئٹرز)
’میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ طالب علم صنعت اور تجارت کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ آپ زمینداروں سے کہیں کہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔‘
قائد اعظم کا جواب تھا ’دیکھو نوجوان طلبہ کے لیے مختلف شعبہ جات کا مطلب ہے کہ وہ پڑھائی کے لیے بھی اسی طرح کے مختلف مضامین کا انتخاب کریں۔‘
بانی پاکستان سے یہ مکالمہ 1946 میں ایک نوجوان طالب علم نے کیا تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور کا یہ طالب علم قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ مگر اس ہدایت کے بعد انہوں نے کامرس کے مضامین میں اعلی تعلیم کا فیصلہ کر لیا۔
94  برس کی عمر میں منگل کی شام کو اسلام آباد میں وفات پانے والے سرتاج عزیز کی زندگی کا یہ واقعہ انہوں نے اپنی آب بیتی میں درج کیا ہے۔
معاشی امور، امور خارجہ کی وزارتوں اور سینٹ آف پاکستان کے طویل عرصے تک ممبر رہنے والے ٹیکنوکریٹ اور سینیئر سیاست دان سرتاج عزیر نے 1953 میں بحیثیت بحیثیت سول سرونٹ اپنے کیریئر کا اغاز کیا۔
70 کی دہائی میں اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں خدمات سر انجام دی۔ زرعی معشیت میں خصوصی مہارت کی وجہ سے 1984 میں ضیا الحق کی کابینہ میں خوراک و زراعت کے وزیر مملکت بنائے گئے۔
سرتاج عزیز کی سیاسی  زندگی کا زیادہ حصہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ گزرا۔ ان کے تینوں ادوار میں بحیثیت وزیر اور مشیر ان کی کابینہ میں شامل رہے۔

پولیس افیسر کے بجائے اکاؤنٹ افیسر

سرتاج عزیز  27 فروری 1929 کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے مردان کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان میں پیدا ہوئے۔

سرتاج عزنز نواز شریف کے تینوں ادوار میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔ (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

والد صوبائی حکومت میں ملازم تھے جب کہ والدہ کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔
اسلامیہ کالج لاہور میں دوران تعلیم وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کے رضاکار کے طور پر حصہ لیا۔
قائد اعظم سے ہونے والی گفتگو سے متاثر ہو کر پنجاب یونیورسٹی میں کامرس کی تعلیم کے ادارے ہیلی کالج سے بی کام کی ڈگری پائی۔
انہوں نے اپنی تعلیم اور رحجان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیا۔ قیام  پاکستان کے بعد سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تو انہیں پولیس گروپ میں شمولیت کی پیشکش کی گئی۔
سرتاج عزیز کے بقول وہ معاشی انتظام اور نئے آئیڈیاز کی طاقت کو بیوروکریسی کی روایتی انتظامی طاقت پر فوقیت دیتے تھے۔
اسی تصور کے زیر اثر انہوں نے پولیس گروپ میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ متبادل کے طور پر ملٹری آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا انتخاب کیا۔
60  کی دہائی میں مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق  کی زیر سرپرستی  پلاننگ کمیشن میں شمولیت اختیار کی۔ اسی دوران انہیں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ایوب دور میں پاکستان کے دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے کوروبہ عمل لانے والی ٹیم کے اہم ممبر کے طور پر کام کیا۔

بھٹو کی تقریر اور امریکن سینٹر کی آتش زدگی

سرتاج عزیز نے پلاننگ کمیشن کے چیئرمین سعید حسن اور محبوب الحق کے ساتھ امریکہ کی طرف سے تیسرے ترقیاتی منصوبے کی اقتصادی امداد کے بارے میں مذاکرات کرنے واشنگٹن گئے۔
واپسی پر صدر ایوب سے ملاقات میں انہیں علم ہوا کہ امریکہ ورلڈ بینک پر پاکستان کو دی جانے والی امداد معطل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ صدر ایوب نے انہیں امریکی سفیر سے مل کر معاملات سلجھانے کی ہدایت کی۔

سرتاج عزیز اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’امریکی سفیر سے ملاقات سے قبل ہی کراچی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے پر جوش انداز میں آزاد خارجہ پالیسی پر مصلحت سے انکار پر مبنی تقریر کر ڈالی۔‘
انہوں نے ممبران اسمبلی سے پوچھا کہ کیا ہمیں امداد کہ عوض اپنے مفاد کا سودا کرنا چاہیے۔ اسمبلی فلور سے نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہوئی۔
سرتاج عزیز کے مطابق اسمبلی کے فلور پر ہونے والی اس کارروائی کا یہ اثر ہوا کہ اگلے روز کراچی میں مظاہرین نے امریکی انفارمیشن سینٹر کو اگ لگا دی۔

کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیوں ملتوی ہوئی؟

اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر سمیت دیگر بین الاقوامی ترقیاتی اداروں میں خدمات کے وسیع تجربے نے سرتاج عزیز پر ضیا الحق کی غیر منتخب کابینہ میں وزارت کا دروازہ کھول دیا۔
انہیں 1984 میں خوراک اور زراعت کا وزیر مملکت تعینات کیا گیا۔ اس دور کہ چھٹے پانچ سالہ منصوبے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ذریعے زراعت اور آبی وسائل کو ترقی دینے کا بہت شو رہ تھا۔
ستمبر 1984 میں کابینہ کی میٹنگ میں صدر ضیا الحق نے سیاسی معاملات اور بحث و مباحثے کو ایک طرف رکھ کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ چھیڑ دیا۔
سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ انہیں یوں لگا کہ میٹنگ کے اختتام کے بعد صدر چیئرمین واپڈا کو بلا کر ڈیم کی تعمیر کا حکم نہ دے دیں۔

سرتاج عزیز نے ایوب دور میں پاکستان کے دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے کوروبہ عمل لانے والی ٹیم کے اہم ممبر کے طور پر کام کیا۔ (فوٹو: عاصم خان ایکس)

مگر اس وقت کے صوبہ  سرحد کے  گورنر جنرل فضل حق کی جانب سے ڈیم کی مخالفت میں دیے گئے زوردار دلائل کہ آگے ضیاء الحق مجبور ہو گئے۔
انہیں مجبوراً اپنے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان کے دلائل کے پیچھے پناہ لینی پڑی۔ یوں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کھٹائی میں پڑ گئی۔

میاں شریف کی گرفتاری کا مقصد

سرتاج عزیز کی میاں محمد نواز شریف کے ساتھ پہلی ملاقات 1985 کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کی سپیکر گیلری میں ہوئی۔ سرتاج عزیز کو حیرت ہوئی کہ وہ ممبر قومی اسمبلی ہیں مگر حلف اٹھانے کے بجائے گیلری میں کیوں بیٹھے ہیں۔ وہ نواز شریف کی طرف گئے اور  انہیں مخاطب کرتے ہوئے بے ساختہ بولے ’کیا آپ پنجاب کے وزیراعلی بننے والے ہیں؟‘
سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا رد عمل اجنبیت بھرا، معنی خیز اور پراسرار تھا۔
’انہوں نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آنے والے برسوں میں جب انہیں مخاطب کی بات کا جواب نہ دینا ہوتا تو وہ اسی رویے کا مظاہرہ کرتے۔‘
ضیا الحق کی موت کے بعد  مسلم لیگ نواز شریف اور جونیجو  کیمپوں میں بٹ گئی۔ اس موقع پر دونوں گروہوں میں مصالحت اور انہیں یکجا کرنے کے لیے سرتاج عزیز سب سے زیادہ سرگرم رہے۔ یہیں سے میاں نواز شریف سے ان کی قربت کا آغاز ہوا۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد غلام اسحاق خان کی طرف سے انہیں نگران وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ اگلے الیکشن کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی وہ اس منصب پر فائز رہے۔

1993  میں غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان سیاسی کشیدگی اور کشمکش کے دوران سرتاج عزیز نے ایک بار پھر مصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
بے نظیر بھٹو کی دوسرے دور حکومت کا واقعہ ہے جب انہیں لاہور سے نواز شریف کی کال موصول ہوئی۔ نواز شریف اپنے والد کی گمشدگی پر پریشان تھے۔
انہوں نے سرتاج عزیز کو بتایا کہ ابا جی کو ان کے دفتر سے گرفتار کر کے اسلام اباد لایا جا رہا ہے۔ آپ پتہ کروائیں کہ انہیں کہاں رکھا جائے گا۔
سرتاج عزیز نے میاں شریف کی تلاش شروع کروائی تو ان کا ایف ایٹ کے ایک مکان میں سراغ مل گیا۔ اگلے روز میاں شریف کو ہارٹ  اٹیک کی وجہ سے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
سرتاج عزیز نے اپنی آب بیتی میں لکھا ہے کہ اگلے روز انہیں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی کال موصول ہوئی کہ میاں شریف کو رہا کر دیا جائے گا۔
اس واقعے کا سب سے حیرت انگیز پہلو سرتاج عزیز کی نظر میں یہ تھا کہ اسی روز صدر فاروق لغاری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔

نواز شریف کے والد کی گرفتاری کا اس خطاب سے بھی تعلق تھا۔ جس کی وضاحت سرتاج عزیز نے یوں کی ہے کہ ’بے نظیر بھٹو کی کابینہ کے کچھ لوگوں نے اپوزیشن کو اشتعال دلا کر صدر کی تقریر میں خلل ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ میاں شریف کی گرفتاری بھی اسی لیے ہوئی۔‘
اسی واقعے سے فاروق لغاری اور بے نظیر کے درمیان عدم اعتماد اور شکوک و شبہات کی ایسی فضا نے جنم لیا جس کا اختتام بے نظیر حکومت کے خاتمے پر ہوا۔
صدر پاکستان بننے کا خواب پورا نہ ہوا؟
’ہم سب آپ کہ فیصلوں کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔ مگر مجھے ایک چیز کی ہمیشہ خلش رہے گی کہ گذشتہ 12 برس سے پارٹی کے لیے ہر چیز کرنے کے باوجود میں آپ کا اعتماد حاصل کرنے میں  کیوں کامیاب نہیں ہوا ؟‘
15  دسمبر 1997 کو ہونے والی کابینہ  کی خصوصی میٹنگ میں صدر فاروق لغاری کی رخصتی کے بعد جب نئے صدر کے نام کا اعلان کیا گیا تو مذکورہ بالا شکوہ سرتاج عزیز نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے کیا تھا۔
میاں محمد نواز شریف سے اپنی قربت اور اپنے غیر متنازع سیاسی کردار کی وجہ سے سرتاج عزیز اپنے آپ کو صدارت کا حقدار سمجھتے تھے۔
 فاروق لغاری کے ایوان  صدر سے رخصتی  سے چھ ماہ قبل مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے لکھا ہے کہ ’اس میٹنگ میں یہ طے پایا کہ اگر نئے صدر کا انتخاب درپیش ہوا تو وہ اس کے سب سے مناسب اور موزوں امیدوار ہوں گے۔‘
اگلے دن تمام اخبارات نے اس کو رپورٹ کیا کہ سرتاج عزیز پاکستان کے اگلے صدر  ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے فاروق لغاری کے لیے پیغام بھی تھا۔
فاوق لغاری کہ ایوان صدر سے رخصتی کے بعد مسلم لیگ کے نمایاں رہنماؤں چوہدری نثار علی خان، الہی بخش سومرو اور دیگر نے انہی کو صدارت کے لیے منتخب کرنے کی حمایت کی۔

اس وقت یہ بھی کہا گیا کہ چیئرمین سینٹ اور وزیراعظم ایک ہی صوبے سے ہیں۔ اس لیے صدارت اس وقت کے صوبہ سرحد کو ملنی چاہیے۔
سرتاج عزیز کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جہانگیر کرامت سے بھی کہا کہ وہ صدارت کے لیے موزوں افراد کی جانچ پڑتال میں مدد کریں۔ جس کے بعد 15 ممکنہ امیدواروں میں سے سرتاج عزیز پہلے نمبر پر تھے۔
رفیق تارڈ کا نام صدارت کے لیے سامنے آنے پر سرتاج عزیز کو بھی حیرت ہوئی۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شاید وزیراعظم نسبتا گمنام اور اپنے مکمل وفادار شخص کو یہ منصب سونپنا چاہتے تھے۔
2014  میں نواز شریف جب تیسری بار وزیراعظم بنے تو سرتاج عزیز قومی سلامتی اور اکنامک افیئرز کے لیے ان کے مشیر تھے۔ اس بار جب صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو بہت سارے لوگوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ سرتاج عزیز کو صدر نامزد کر کے ماضی کی غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ مگر اس بار بھی نواز شریف کا فیصلہ ماضی سے مختلف نہ تھا۔

شیئر: