’مصمک محل کے دروازے پر ریاض کو آزاد کرانے والے معرکے کے نشانات آج تک جوں کے توں محفوظ ہیں‘ ( فوٹو: سبق)
مصمک محل وہ تاریخی مقام ہے جہاں سے مملکت سعودی عرب کے قیام کی تاسیس کا علم بلند ہوا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاں مملکت سعودی عرب کو جو مختلف ریاستوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک ریاست بنایا گیا تھا۔
مصمک محل کے دروازے پر ریاض کو آزاد کرانے والے معرکے کے نشانات آج تک جوں کے توں محفوظ ہیں۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق مصمک محل کی سرزمین سے اور اس کے دروازوں سے شاہ عبدالعزیز کے آباو اجداد کی حکمرانی کو بحال کیا گیا۔
انہوں نے یہاں سے سعودی عرب کے اتحاد کے لیے جہاد کا سفر شروع کیا جس کے نتیجے میں تیسری سعودی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
المصمک قلعے کی تعمیر کی کہانی امام عبداللہ بن فیصل بن ترکی آل سعود کے دور کی ہے جنہوں نے اس کی تعمیر کا آغاز 1282ھ بمطابق 1865ء میں ریاض میں ایک بڑے محل کے اندر کیا۔
اسے المصمک کا نام دیا جاتا تھا۔ شاید اس کے اس نام کی وجہ تسمیہ اس کی تعمیر کی موٹی اور اعلی خصوصیات تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ قلعہ 148 سال بعد بھی اپنی عظمت رفتہ اور فن تعمیر کی شان و شوکت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
یہ قلعہ پرانے ریاض کے مرکز میں واقع ہے جس میں اس وقت شمال اور جنوب سے’السویلم‘ نامی ایک سڑک اور مشرق و مغرب میں ’الثمیری‘ سڑکیں موجود تھیں۔
قلعے کے گرد 20 فٹ اونچی مٹی کی دیواربنی ہوئی ہے جو آج بھی موجود ہے۔
المصمک قلعہ جدید ریاض میں جدید وقدیم کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ اپنی قدیم تاریخ اور قدیم مٹی کی تعمیر کے ساتھ جدید عمارتوں اور اس سے متصل پختہ سڑکوں کے درمیان کھڑا ہے۔
اس کے کونوں اور دیواروں کو سنہری رنگ کی روشنیوں سے منور کیا گیا جو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔
اپنے ڈیزائن میں المصمک نے قدیم شہری عمارت کو روایتی فن تعمیر کے ساتھ جوڑ دیا۔
مصمک قلعہ اینٹوں اور مٹی کی بنیادوں سے بنایا گیا تھا جبکہ اس کی بیرونی اور اندرونی دیواریں مٹی کے پلستر سے ڈھکی ہوئی ہیں۔
یہ سادہ تعمیراتی ورثہ ایک طرف ایک دفاعی قلعے کے طور پر المصمک کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور دوسری طرف سعودی شناخت کی گہرائی کوجاننے کا ایک ذریعہ ہے۔
1399ھ میں ریاض کی میونسپلٹی نے قلعہ کی بحالی کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا اور اندر اور باہر عمومی مرمت کی گئی۔
مرمت کا کام سنہ 1403ھ میں مکمل ہوا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس وقت ریاض کےگورنر تھے۔
انہوں نے مصمک قلعے کو نوادرات اور عجائب گھروں کے جنرل ڈپارٹمنٹ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ المصمک کو مملکت کے قیام اور اتحاد کے مراحل پر ایک خصوصی عجائب گھر میں تبدیل کرنے کے بعد 13 محرم 1416ھ کو اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔
المصمک قلعہ عمارت کے مغربی جانب 3.60 میٹر کی اونچائی، 2.65 میٹر چوڑائی اور 10 سینٹی میٹر موٹائی پر واقع لکڑی کے مرکزی دروازے ہیں۔
قلعہ میں داخل ہونے کے لیے دروازے کے اندر جگہ قدرے تنگ ہے جسے’الخوخہ‘ کہا جاتا ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک مسجد ہےجس میں مٹی کے کئی موٹے کالم ہیں اور اس کی دیواروں میں قرآن پاک کے لیے کئی شیلف بنائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ چھت اور دیواروں میں پلستر شدہ ہیں جبکہ محراب اور ہوا کی آمد و رفت کے لیے دریچے موجود ہیں۔
المصمک میں مخروطی شکل کے چار مینار ہیں جن میں سے ہر ایک کی اونچائی 14 میٹر ہے اور درمیان میں ایک ٹاور ہے جسے’اسکوائر‘ کہا جاتا ہے جس کی لمبائی 18 میٹر ہے۔ یہ ٹاور اوپری بالکونی سے قلعہ کی نگرانی کا کام دیتا ہے۔
مرکزی صحن ایک کمرے پرمشتمل ہے جس میں کالم اندرونی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ قلعے کی پہلی منزل اور چھت کی طرف جاتا ہے۔ تین رہائشی کمروں کے علاوہ ایک مہمان خانہ بھی ہے۔
المصماک قلعے کی ترقی کا پہیہ یہیں نہیں رکا بلکہ وزارت سیاحت نے اس میں میوزیم ڈسپلے تیار کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت قلعے کی عمارت کو پانچ سے دس پویلین تک بڑھایا گیا۔ اس میں 17 سے زائد ہالز ہوں گے۔
المصمک محل کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے اس کا دورہ کیا ہے۔