Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں فسادات کے بعد ایک تہائی مسلمان عقیدے پر بات کرنے سے گریزاں: سروے

47 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ برطانیہ میں میڈیا کو مذہب کی زیادہ کوریج کرنی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم تقریباً ایک تہائی مسلمان اپنے عقیدے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
جولائی میں برطانیہ بھر میں فسادات شروع ہونے کے بعد سے اسلام کے بارے میں بات کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں جسے ایک ماہر نے ’گھبراہٹ کا احساس‘ کہا ہے۔ 
عرب نیوز کے مطابق انسٹی ٹیوٹ فار دی امپیکٹ آف فیتھ آف لائف کی طرف سے شائع کردہ ایک سٹڈی میں 30 اگست اور 1 ستمبر کو سروے کیے گئے جس میں 2835 مسلمانوں میں سے 34 فیصد نے اس بیان سے اتفاق کیا کہ ’میں نے پچھلے چار ہفتوں میں لوگوں کو اپنے عقیدے کے بارے میں بتانے سے گریز کیا ہے۔‘ گذشتہ مہینے کے مقابلے میں یہ 10 فیصد اضافہ ہے۔
ساٹھ فیصد نے یہ بھی محسوس کیا کہ برطانوی میڈیا کچھ مذاہب کو ’دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں‘ پیش کرتا ہے، جبکہ 41 فیصد نے محسوس کیا کہ تمام مذاہب کو پچھلے مہینے میڈیا نے غلط رنگ دیا ہے۔
اس کے علاوہ 47 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ برطانیہ میں میڈیا کو مذہب کی زیادہ کوریج کرنی چاہیے۔
آئی آئی ایف ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جیک سکاٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اعدادوشمار برطانوی مسلمانوں میں اس خواہش کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ برطانیہ کے میڈیا میں مذہب پر زیادہ متوازن بحث دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس بحث میں اسلام کی زیادہ نمائندگی کی جائے۔‘
’موسم گرما کے ہنگاموں اور خلفشار کے بعد یہ واضح ہے کہ برطانیہ میں مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں دوسروں کے بات کرنے میں کم محفوظ محسوس کرتے ہیں، جبکہ اکثریت میڈیا کو عقیدے کے بارے میں منفی تاثر پھیلاتے دیکھتی ہے۔‘
عرب-برٹش انڈرسٹینڈنگ کونسل کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل نے عرب نیوز کو بتایا کہ برطانوی مسلمانوں نے 9/11 اور 2005 کے لندن بم دھماکوں سمیت دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد بھی اسی طرح کے رجحانات کا تجربہ کیا ہے۔
’بہت سے لوگوں نے خوفزدہ محسوس کیا، اس وجہ سے کہ برطانوی آبادی میں سے بہت سے لوگ اسلام کو حقیقت میں نہیں سمجھتے، برطانوی مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی طرح سے ہمدردی نہیں رکھتے، اور اجتماعی طور پر ان پر کسی اور کی طرف سے کیے گئے جرائم کا الزام لگا رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہم اس موسم گرما میں خوفناک انتہائی دائیں بازو کے فسادات کے ساتھ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ برطانوی مسلم کمیونٹی میں گھبراہٹ کے احساس کی واپسی ہے۔‘

کرس ڈوئل کے مطابق ’برطانوی مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ اسلامو فوبک ماحول ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہم نے بہت زیادہ اسلامو فوبیا دیکھا ہے، بہت سارے مسلم مخالف جذبات دیکھے ہیں۔ ہمارے سینیئر برطانوی سیاست دان اس میں ملوث ہیں، بشمول، اور خاص طور پر میں ڈرتا ہوں، کنزرویٹو پارٹی کے اندر جہاں اسلامو فوبیا ایک حقیقی مسئلہ ہے، بشمول موجودہ انتخابات میں امیدواروں میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ پس منظر ہے کہ برطانوی مسلمان شاید کچھ گھبراہٹ کا شکار ہیں۔‘
کرس ڈوئل نے کہا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ برطانیہ میں مذہب کی میڈیا کوریج سیکولرازم سے تیزی سے متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
’برطانوی مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ اسلامو فوبک ماحول ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یقیناً برطانوی-یہودی برادری یہود دشمنی، یہودی مخالف جذبات اور نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے سے بہت پریشان ہے۔‘
’لہذا یہ ایک مجموعی تاثر ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو عوامی زندگی میں، میڈیا میں اور سیاست میں رہنے والوں کو احتیاط سے نوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
تاہم کرس ڈوئل کو شک تھا کہ برطانوی میڈیا میں مذہبی کوریج میں اضافہ یا اسلام کے بارے میں عوامی معلومات میں اضافہ عام طور پر غیر انسانی جذبات کو کم کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تارکین وطن مخالف اور قوم پرستانہ رویہ بھی ہے۔ 

کرس ڈوئل نے کہا کہ برطانیہ میں مذہب کی میڈیا کوریج سیکولرازم سے تیزی سے متاثر ہو رہی ہے (فوٹو: روئٹرز)

برطانوی مسلمانوں کے اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے کہ وہ اپنے مذہب پر بات نہیں کر سکتے، یا یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ میڈیا کا ہدف ہیں، ڈوئل نے کہا کہ ’اس کے لیے عوامی زندگی میں قائدانہ عہدوں پر فائز لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاست اور میڈیا میں۔ انتہائی دائیں بازو کی اس بات پر توجہ نہ دیں کہ برطانوی مسلمان برطانوی نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بھی اہم ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ برطانوی مسلمان برطانوی عوامی زندگی کے تمام شعبوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘
’میرے خیال میں اس سمت میں بہت ساری مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمارے پاس لندن کا ایک مسلمان میئر ہے اور اسی طرح ہماری کابینہ میں برطانوی مسلمان شامل ہیں۔‘

شیئر: