Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدینہ منورہ کے آتش فشاں جو دل موہ لینے والی کہانیاں سناتے ہیں

’مکہ کے شمال سے شروع ہونے والے رہط نامی آتش فشانی پہاڑوں کا سلسلہ مدینہ منورہ تک پھیلا ہوا ہے‘ ( فوٹو: سبق)
مدینہ منورہ عالم اسلام کا دل ہے اور اس شہر میں انتہائی اہم جیولوجیکل علامتیں بھی ہیں جو اسے جغرافیائی طور پر پر ممتاز کرتی ہیں۔
العربیہ کے مطابق  مدینہ منورہ کو چاروں طرف سے متعدد خاموش آتش  فشانی پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے جو اس بات کی دلیل ہیں یہاں قدیم زمانے میں لاوے پھوٹے تھے۔
سرد آتش فشانی پہاڑ وں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے کے یہ آتش فشانی پہاڑ شہر کے جغرافیائی حیثیت کو بھی منفرد کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’مکہ مکرمہ کے شمال سے شروع ہونے والے رہط نامی آتش فشانی پہاڑوں کا سلسلہ مدینہ منورہ تک پھیلا ہوا ہے۔
رہط نامی پہاڑی سلسلے لابہ نامی ٹیلے ہیں جن میں سے بعض کی عمر ہزاروں سال پرانی ہے ، بعض ایسے بھی اس سے زیادہ قدیم ہیں جبکہ مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں ایک آتش فشانی ٹیلہ ایسا بھی ہے جو 654 ہجری میں سرگرم تھا۔
مدینہ منورہ کی تاریخ اور سیرت کے ماہر عز الدین السبکی نے بتایا ہے کہ ’مدینہ منورہ کے متعدد آتش فشانی پہاڑوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے علاقے کی جغرافیائی حیثیت انتہائی منفرد اور طبعی ساخت خوبصورت ہے‘۔

’آتش فشاں کا لاوا مسجد نبوی سے 8.2 کلو میٹر دور تک پہنچ گیاگیا تھا‘ ( فوٹو: سبق)

’قدیم لاوے کی وجہ سے بعض مقامات پر پائپ کی سی شکل بن گئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں سمندر کی موجوں جیسی شکل ہے‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’لاوے کی وجہ سے بعض پہاڑوں میں غار بن گئے ہیں جبکہ لاوے کے ساتھ ہمیشہ زلزلے کے جھٹکے بھی ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے بعض مقامات پر زمین میں دراڑیں بھی موجود ہیں‘۔
’علاقے پر پھٹنے والے آخری آتش فشاں کی عمر 8 سو سال ہے ، اس کا لاوا العاقول نامی وادی تک پہنچ گیا جہاں کسی زمانے میں سیلاب سے بچنے کے لیے ڈیم بنایا گیا تھا‘۔
’یہ ڈیم سرخ پتھروں سے بنایا گیا تھا، لاوے کے اثرات آج بھی ان سرخ پتھروں پر دیکھے جاسکتے ہیں‘۔
انہوں نے  بتایا ہے کہ ’علاقے کی سخت جغرافیائی حیثیت کے باوجود یہاں رہنے والے انسانوں نے اس میں رہنے کے طور طریقے سیکھ لئے اور زمین کی زرخیزی سے فائدہ اٹھایا‘۔
’علاقے میں کئی ایسے نشانات موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے سے یہاں انسان آباد تھے‘۔
’رہط نامی آتش فشانی پہاڑی سلسلے کے شمال میں آج بھی قدیم انسانی تمدن کے آثار ہمیں ملتے ہیں‘۔
’مدینہ کے مشرقی اور مغربی آتش فشانی پہاڑ اس قدر نمایاں ہیں کہ ان کا ذکر ہمیں حدیثوں میں بھی ملتا ہے‘۔
القصیم یونیورسٹی میں جغرافیا کے استاد ڈاکٹر عبد اللہ المسند نے بتایا ہے کہ ’سعودی عرب میں کئی سو سرد آتش فشاں موجود ہیں جن میں سے بعض کی عمر 25 ملین سال قدیم ہے‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’صرف خیبر میں 4 سو آتش فشانی پہاڑ ہیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ان کی تعداد 700 تک پہنچ جاتی ہے جبکہ سعودی عرب میں دو ہزار سرد آتش فشاں موجود ہیں‘۔

’سب سے گہرا آتش فشانی دہانہ 220 میٹر گہرا ہے جبکہ اس کا گھیر دو ہزار میٹر ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)

انہوں نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں مجموعی طور پر 13 آتش فشانی پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ حجاز میں آخری سرگرم آتش فشاں 1256 میں ابلا تھا اور اس کا لاوا 23 کلو میٹر تک بہا تھا‘۔
’تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آتش فشاں کا لاوا مسجد نبوی سے 8.2 کلو میٹر دور تک پہنچ گیاگیا تھا‘۔
’سعودی  عرب میں سب سے گہرا آتش فشانی دہانہ 220 میٹر گہرا ہے جبکہ اس کا گھیر دو ہزار میٹر ہے، یہ طائف کے شمال مشرق میں ہے اور اس کا نام الوعبہ ہے ‘۔
انہوں نے  کہا ہے کہ ’سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں بے شمار سرد آتش فشاں ہیں جبکہ ان میں سے خوبصورت ترین وہی ہے جو مدینہ منورہ میں ہے‘۔
 

شیئر: